کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 38
امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کے بعد موجود زیادت سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ صالح بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے ایسے لوگ پائے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا تھا۔ وہ اگر جنازہ کے لئے آتے اور نمازیوں کو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھتے دیکھتے تو لوٹ جاتے اور مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ (امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس زیادت کی روایت کی ہے لیکن اس میں یہ صراحت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ اگر وہ جنازہ کے لئے آتے… الخ) اس زیادت میں صراحت پائی جاتی ہے کہ صالح نے جماعت ِائمہ کے الفاظ ہی میں حدیث کی روایت کی ہے کیونکہ یہ وہی فرد ہیں جو ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ’’فلاشيئ عليه‘‘ کے خلاف اس حکایت کی نسبت ان صحابہ کی طرف کرتے ہیں جو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو ترک کرتے تھے۔ پس یہ چیز اس کی وضاحت اور ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی نفی کرتی ہے۔‘‘ (۳۲ ) راقم الحروف کی رائے میں ، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو ’شاذ‘ قرار دینا اصولاً درست نہیں ہے کیونکہ ’شاذ‘ اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جس کا راوی خود تو ثقہ ہے لیکن کسی روایت میں اپنے سے اوثق یا اکثر رواۃ کی اس طرح مخالفت کرتا ہے کہ ان میں سے ایک کا صدق دوسرے کے کذب کو مستلزم ہو۔ ایسے راوی کی مخالف روایت کو محفوظ اور ا س کی مخالفت کو مخالفۃ الثقات کہتے ہیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا قول ہے: ’’الشاذ مارواه المقبول مخالفا لرواية من هو أولی منه، لا أن يروی ما لا يروی غيره، فمطلق التفرد لا يجعل المروي شاذ کما قيل، بل مع المخالفة المذکور‘‘ امام حکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’إن الشاذ هو الحديث الذي ينفرد به الثقة من الثقات وليس له أصل بمتابع لذلک الثقة‘‘ اور امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’الشاذ هو أن يروی الضابط والصدوق شيئًا فرواه من هو أحفظ منه أواکثر عددًا بخلاف ماروی بحيث يتعذر الجمع علی قواعد المحدثين‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ووجه ردّ الشاذ المخالفة لمن هو أوثق من رواية، لا الضعف فی راوي الشاذ‘‘ مزید تفصیل مصطلح الحدیث کی کتب(۳۳ ) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ چونکہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے تمام ائمہ کی روایات ایک ہی راوی ابن ابی ذئب عن صالح مولی التوأمہ عن ابی ہریرہ مروی ہیں لہٰذا ثقہ واَوثق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر محدثین نے ان روایات میں ا ختلافِ الفاظ کی تاویل اور ان میں جمع و تطبیق کی سعی بھی کی ہے، جس