کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 36
موجود ہیں :1.نقلی دلیل اور2.عقلی دلائل… جہاں تک نقلی دلیل کا تعلق ہے تو جاننا چاہئے کہ اس فریق کے پاس اس بارے میں وارد صرف ایک ہی حدیث ہے اور وہ بھی ایسی کہ جس کی صحت پر متقدمین نے بہت کچھ کلام کیا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم اس حدیث کے الفاظ میں اختلاف، اس کے مقام و مرتبہ، اس پر کلام کی تفصیل اور حقیقت بیان کرنے کے علاوہ اس کے معانی کی تعیین اور رفع تعارض کی کوشش کریں گے… وباللہ التوفیق امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ (م۵۱۶ھ)فرماتے ہیں کہ :’’بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ مسجد میں میت پرنمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔یہ قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کیونکہ صالح مولی التوأمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’من صلی علی الجنازة في المسجد فلا شيیٔ له‘‘ (۲۲) ’’جس نے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی، اس کے لئے کچھ نہیں ہے۔‘‘ حدیث کے الفاظ میں اختلاف:مخرجین نے مختلف الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی تخریج کی ہے، چنانچہ امام ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’حدیث کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’السنن‘ میں فرمایا ہے کہ اصل الفاظ ’’فلاشيئ عليه‘‘ ہیں ، لیکن ان کے علاوہ یعنی دوسروں نے ’’فلاشیء له‘‘ کے الفاظ بھی روایت کئے ہیں ۔ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’سنن‘ میں ’’فليس له شيئ کے الفاظ روایت کئے ہیں ۔‘‘ (۲۳) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ (۵۱۶ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ایک روایت میں ’’ فليس له أجر‘‘ کے الفاظ بھی وارد ہیں ۔‘‘ (۲۴) شارحِ سنن ابوداود علامہ ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں : ’سنن ابوداود‘ کے دو قدیم نسخوں میں ’’فلاشيئ عليه‘‘ (یعنی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے) کے الفاظ واقع ہیں جبکہ اس کے ایک اور قدیم نسخہ میں ’علیہ‘ کی جگہ ’لہ‘ (یعنی اس کیلئے کچھ نہیں ہے) کا لفظ موجود ہے۔ امام منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصل میں اسی طرح ہے، انتہیٰ راقم الحروف نے بھی یہ عبارت دورِ حاضر کے تین نسخوں میں اسی طرح (یعنی ’علیہ‘ کے ساتھ)