کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 35
صهيبا صلی علی عمر في المسجد‘‘ (۱۴) ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجدمیں پڑھائی اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھائی تھی۔‘‘ ان صحیح و صریح احادیث کے علاوہ فقہاے محدثین نے اپنی گراں قدر اور مشہور زمانہ تصانیف میں اس بارے میں مستقل ابواب قائم کئے ہیں ، مثال کے طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’صحیح‘ میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’الصلاة علی الجنائز بالمصلی والمسجد‘‘ (۱۵) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ ، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبدالسلام بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (م۶۵۲ھ) نے باب ’’الصلاة علی الجنازة فی المسجد‘‘ (۱۶) قائم کیا ہے جبکہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تبویب کی ہے: ’’باب ماجاء في الصلاة علی الجنائز في المسجد‘‘ (۱۷) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سید سابق نے باب: ’’ماجاء في الصلاة علی الميت في المسجد‘‘ (۱۸) قائم کیا ہے۔ امام ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک باب کا عنوان ہے: ’’حکم الصلاة علی الميت في المسجد‘‘ (۱۹) امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حديث في الصلاة علی الميت فی المسجد‘‘ (۲۰) کا عنوان باندھا ہے، اور محدثِ عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں عنوان قائم کیا ہے: ’’جواز صلاة الجنازة في المسجد والأفضل في المصلی‘‘ (۲۱) یہ جلیل القدر محدثین اور علما اپنی موقر تصانیف میں مذکورہ بالا ابواب قائم کرکے اس کے تحت اس سلسلہ کی متعدد احادیث لائے ہیں ، گویا اس طرح انہوں نے نہ صرف مسجد میں میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے جواز کو ثابت کیا ہے بلکہ احادیث الباب سے اس پر استدلال اور اس مسئلہ کا استخراج بھی کیا ہے۔ ان فقہاء محدثین کے علاوہ متعدد محقق علمائے زمانہ نے بھی ہر دور میں اپنی معرکۃ الآرا تصانیف میں اس بارے میں خوب تفصیل سے بحث کی ہے، جس کا کچھ تذکرہ ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائے گا۔ اب ہم مانعینِ جواز کے دلائل اور ان کا جائزہ پیش کرتے ہیں : مسجد میں نمازِ جنازہ کے مانعین کے دلائل جو حضرات مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں ، ان کے پاس دو طرح کے دلائل