کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 32
فقہ واجتہاد غازی عزیر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم محقق علماء کے نزدیک کسی مسلمان میت کو مسجد کے اندر لاکر اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا نہ شرعاً منع ہے اور نہ ہی مکروہ۔ جمہور فقہا یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، (ایک روایت کے مطابق) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام اسحق رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ ، امام داود رحمۃ اللہ علیہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ، اگرچہ بعض فقہا، مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، ابن ابی ذئب رحمۃ اللہ علیہ اور ہادویہ وغیرہ، سے اس کی کراہت منقول ہے۔ چونکہ کسی عمل کو مکروہ قرا ردینے کے لئے ٹھوس شرعی دلائل کا موجود ہونا ضروری ہے لہٰذا ہم ذیل میں فریقین کے تمام دلائل اور ان کا علمی جائزہ پیش کریں گے تاکہ اس مسئلہ کی حقیقت واضح ہوجائے اور ہر خاص و عام کے علم میں آجائے، وباللہ التوفیق مسجد میں نمازِ جنازہ کے جواز کے دلائل 1. عن أبی سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة، لما تُوُفِّي سعد بن أبي وقاص قالت: ادخلوا به في المسجد حتی أصلي عليه، فأنکر ذلک عليها، فقالت: والله لقد صلی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم علی ابني بيضاء في المسجد سهيل وأخيه‘‘(۱) ’’ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال(۲) ہوگیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان کی میت کومسجد میں لاؤ تاکہ میں ان پر نماز جنازہ پڑھ لوں ۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضا کے دو بیٹوں حضرت سہل رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی حضرت سہیل(۳) کے جنازوں کی نماز مسجد میں پڑھی تھی۔‘‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کواپنی سند سے روایت کرنے کے بعد ’حسن‘ قرار دیا ہے۔ شارح ترمذی علامہ شیخ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۵۲ھ) امام ترمذی کی مذکورہ تحسین کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سوا محدثین کی ایک