کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 25
’’المؤمن علی المؤمن حرام کحرمة هذا اليوم لحمه عليه حرام أن ياکله بالغيب ويغتابه وعرضه عليه حرام أن يخرقه ووجهه عليه حرام أن يلطمه وأذاه عليه حرام أن يؤذيه وعليه حرام أن يدفعه دفعا يتعتعه‘‘ (مجمع الزوائد:۳/۲۷۲) ’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس طرح حرمت والا ہے جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے۔اس کاگوشت بھی اس پر حرام ہے، وہ جو اس کی غیبت کر کے کھاتا ہے۔اس کی عزت کو تار تار کرنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، اس کو اذیت دینا اور دھکے دے کر دفع دور کرنا بھی حرام ہے ۔‘‘ (مجمع الزوائد :۳/۲۷۲) حکم:اس روایت میں کرامۃ بنت الحسن مجہول ہے۔ 9. ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم العرفہ کو فرمایا: ’’ألا کل نبی قد مضت دعوته إلا دعوتی فإنی قد ذخرتها عند ربی إلی يوم القيامة، أما بعد! فإن الانبياء مکاثرون فلا تخزونی فإنی جالس لکم علی باب الحوض‘‘ (مجمع الزوائد:۳/۲۷۱، کنز الاعمال:۳۹۰۸۵) ’’خبردار! ہر نبی اپنی دعا کے ساتھ گزر چکے لیکن میں نے اپنے ربّ کے پاس اپنی دعا قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ کر چھوڑی ہے۔ پس بے شک انبیا اپنی اپنی امت کی کثرت دیکھ رہے ہوں گے، سو تم مجھے خفت میں نہ ڈالنا، میں تمہارے لئے حوضِ کوثر کے دروازے پر بیٹھا ہوں گا۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں بقیۃ بن الولید مدلس ہے۔ 10. امام ابوداؤد اپنی ’سنن‘ میں باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃکے تحت روایت لائے ہیں ’’عن رجل من بنی ضمرة، عن أبيه، أو عمه قال: رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وهو علی المنبر بعرفة‘‘ ’’بنو ضمرہ (قبیلہ ) کا ایک آدمی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، وہ عرفہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے (ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی : ۴۱۶)