کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 24
’’ليس هذا الحديث من کلام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ولا من حديث أبی هريرة ولا الأعرج ولا مالک والحسن بن علي کان يضع علی الثقاة لا يحل کتب حديثه ولا الرواية عنه حلال‘‘ (الموضوعات:۲/۲۱۶) ’’یہ روایت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ابوہریرۃ کی کلام ہے اور نہ اعرج و مالک کے کلام میں سے ہے۔ حسن بن علی الازدی ثقات پر جھوٹ باندھتا تھا، اس سے روایت کرنا جائزنہیں ۔‘‘ 6. حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’المؤمن حرام علی المؤمن کحرمة هذا اليوم، لحمه عليه حرام أن ياکله بالغيبة يغتابه وعرضه عليه حرام أن يظلمه وأذاه عليه حرام أن يدفعه دفعا‘‘ (مجمع الزوائد:۳/۲۶۸) ’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے اس طرح حرمت والا جس طرح آج (یوم الاضحی) کا دن حرمت والا ہے اور مؤمن کا گوشت دوسرے مؤمن پر حرام ہے جو وہ اس کی غیبت کرکے کھاتا ہے اور اس کی عزت بھی حرام ہے کہ ظلم کرکے اس کی بے عزتی کرے اور اس کو ردّ / دور کرکے تکلیف پہنچانا بھی حرام ہے۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس میں محمد بن اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے۔ 7. سنن ابن ماجہ میں ابن مطر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: ’’ياأيها الناس خذوا العطاء ماکان عطاء فإذا تجاحفت قريش علی الملک وکان عن دين أحدکم فدعوه ‘‘ (ضعیف سنن ابی داود للالبانی:۶۳۳) (آپ لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے منع کررہے تھے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ) اے لوگو! (حاکم) کی بخشش کو لے لیا کرو جب تک وہ بخشش رہے (یعنی موافق شرع کے حاصل ہو اور موافق شرع کے تقسیم ہو) پھر جب قریش ایک دوسرے کے ساتھ بادشاہت کے لئے لڑنا شروع کردیں اور یہ عطا فرض کے بدلہ میں ملے تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے حوالہ مذکورہ ؛ ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی 8. کعب بن عاصم الاشعری کہتے ہیں کہ میں نے اوسط ایام التشریق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :