کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 23
4. ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا: ﴿ إنَّمَا النَّسِئُ زِيَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِؤا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ﴾ کانوا يحلون صفرًا عاما، ويحرمون المحرم عاما ويحرمون صفرًا عاما، ويحلون المحرم عاما، فذلک النسيئ (کشف الاستار:۱۱۴۱) ’’سال کی کبیسہ گری کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اس کے باعث بہکائے جارہے ہیں ۔ وہ اسے ایک سال حلال کرلیتے ہیں اور اسے ایک سال حرام کرلیتے ہیں ، تاکہ اس تعداد کا تکملہ کرلیں جو خدا نے حرام کررکھی ہے اور نسئ اس کوکہتے ہیں کہ وہ لوگ محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال صفر کو حلال قرار دیتے ، اسی طرح ایک سال صفر کے مہینے کو حرمت والا بنا دیتے ہیں تو ایک سال محرم کو لڑائی کے لئے حلال قرار دیتے ہیں ۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔ 5. ابن صامت سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا: ’’إن الله قد غفر لصالحيکم وشفع صالحيکم فی طالحيکم ينزل المغفرة فتعمهم ثم يفرق المغفرة فی الأرض فتقع علی کل تائب ممن حفظ لسانه ويده وإبليس وجنوده علی جبال عرفات ينظرون ما يصنع الله فيهم، فإذا نزلت المغفرة دعا وجنوده بالويل‘‘ (الموضوعات:۲/۲۱۶، ترغیب:۲/۲۰۲، منثور : ۱/۲۳۰) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے صالحین کو بخش دیا اور ان کی ضعیف اعمال والے لوگوں کے بارے میں بھی سفارش قبول کی جس کی و جہ سے اللہ کی رحمت اُترنے لگی اور عام ہونے لگی، پھر یہ مغفرت زمین پر بکھیر دی گئی، زبان اور ہاتھ کے گناہوں سے بچنے والے ہر تائب پریہ واقع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کو ابلیس اور ا س کا لشکر عرفات کے پہاڑوں پر سے دیکھ رہے ہیں ۔ جب بھی اللہ کی رحمت اُترتی ہے تو ابلیس اور اس کے لشکر واویلا کرتے ہیں ۔‘‘ حکم:یہ روایت موضوع ہے ،الحسن بن علی ازدی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔ اس روایت کی سند کے بارے میں ابن حبان لکھتے ہیں :