کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 22
ہے…مجمع الزوائد (۴/۲۳۶) میں ہیثمی نے ذکر کیا اور کہا کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے بھی اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ الغرض غلاموں کے بارے میں اس مضمون کی حجۃ الوداع کے حوالے سے کوئی مستند روایت نہیں ۔ نوٹ:لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ صحیح روایت بھی موجود ہے: ’’إخونکم خولکم جعلکم الله تحت أيديکم فمن کان أخوة تحت يده فليُطعمه مما يأکل وليلبسه مما يلبس ولا تکلفوهم ما يغلبهم فإن کلفتموهم فأعينوهم‘‘ (مسلم:۱۶۵۷،۱۶۶۱) (مسنداحمد:۴۷۸۴)، (ابویعلی:۵۷۸۲)، (الادب المفرد:۱۸۰)، (ابوداود:۵۱۶۸)، (سنن بیہقی:۸/۱۰)، (الشعب :۸۵۷۲)، (طبرانی فی الکبیر:۱۳۲۹۴) ان کتب میں اس مضمون کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں ۔ 2. ابوحرہ الرقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا: ’’ألا ومن کانت عنده أمانة، فليؤدها إلی من ائتمنهٰ عليها‘‘ (مسنداحمد:۵/۷۳) ’’ جس کسی کے قبضے میں کوئی امانت ہو تو اسے اس کے مالک کو ادا کرے ۔‘‘ (محسن انسانیت از نعیم صدیقی:صفحہ ۵۸۵) حکم:یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں علی بن زید ضعیف ہے جو کہ ابن جدعان کی کنیت سے معروف ہے۔ 3. ابوامامۃ الباہلی سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تنفق امرأة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها، قيل: يارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! ولا طعام؟ قال: ذلک أفضل أموالنا، العارية مؤداة، والمنيحة مردودة، والدين يقضی والزعيم غارم‘‘ (مصنف عبدالرزاق:۱۶۳۰۸) ’’ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں ، قرض ادا کیا جائے، عاریتا واپس کی جائے، عطیہ لوٹایا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‘‘ حکم:یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش مُختلط راوی ہے۔ اس معنی کی روایت (ابوداود :۳۵۶۵، ابن ماجہ:۲۳۹۸) وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں کی گئی۔