کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 14
مارنے لگو جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں ) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں ) پہنچائی جائیں گی، وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔‘‘ (الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸9
5. سلیمان بن عمرو بن اَحوص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ فرمایا:
’’ألا لا يجنی جان إلا علی نفسه، ولا يجنی والد علی ولده ولا ولد علی والده، ألا إن المسلم أخو المسلم، فليس يحل لمسلم من أخيه شيئ إلا ما أحل من نفسه۔ ألا وإن کل ربا فی الجاهلية موضوع، لکم رؤوس أموالکم، لا تظلمون ولا تظلمون غير ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله‘‘ (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)
’’یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) خبردار! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے، تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو۔ عباس بن عبدالمطّلب کا سود سارے کا سارا ختم ہے۔‘‘
6. انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خطبنا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد من منی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسجد ِخیف میں جو کہ منیٰ میں ہے، خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نضر الله امرأ سمع مقالتی فحفظها ووعاها، ثم ذهب بها إلی من لم يسمعها، فربّ حامل فقه ليس بفقيه ورب حامل فقه إلی من هو أفقه منه‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب للالبانی :۸۶)
’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو اس تک پہنچایا جس نے اسے سنا نہیں ۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود فقیہ نہیں ،مگر فقہ(بصورتِ حدیث) کو اٹھائے پھرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ شخص تک اس فقہ(حدیث) کو پہنچانے والے ہیں ۔‘‘