کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 10
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر کا موقف بھی یہی ہے کہ عرفہ کا دن جمعہ کے دن تھا۔ (فتح الباری :۸/۲۷۰)اوریہی بات صاحب ِتحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں کہ ’’یہ عرفہ کا دن تھا اور اس دن جمعہ تھا۔‘‘ (تحفۃ الاحوذی: ۴/۹۶ )
اس تحقیق کے بعد راجح بات یہی سامنے آتی ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے ہم نے دوسرے دو خطبوں کے دنوں کا تعین یوم النحربروز ہفتہ، یوم الرؤس بروز سوموار کیا ہے۔ واللہ أعلم
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں :
1. امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵/۱۲۵)
2. حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں
’’فأتی بطن الوادی، فخطب الناس وقال: إن دماء کم وأموالکم حرام عليکم، کحرمة يومکم هذا فی شهر کم هذا فی بلدکم هذا،
ألا کل شيئ من أمر الجاهلية تحت قدمی موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزيل،
وربا الجاهلية موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله
فاتقوا الله فی النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم عليهن أن لا يوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلک فاضربوهن ضربًا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف،
وقد ترکت فيکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله،
وأنتم تُسألون عنی، فما أنتم قائلون؟
قالوا: نشهد أنک قد بلغت وأدّيت ونصحت،
فقال بإصبعه السبابة، يرفعها إلی السماء وينکتها إلی الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات
(صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱/۵۸۸)