کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 94
ان ممالک کے لوگ بچوں کو پالنا مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ بچے ان کی زندگی کی رنگینیاں غارت کردیتے ہیں ۔ لہٰذا ایک تو ان ممالک میں قلت ِاولاد اور آبادی میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ دوسرا اگر بچے ہیں بھی تو ان میں حرامی بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں ناجائز بچوں اور کنواری ماؤں کی تعداد میں مسلسل ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجۃً وہاں نسب نامے گم ہو رہے ہیں ، خاندان سکڑ چکے ہیں ۔ جنسی درندے تمام اخلاقیات کو پامال کرکے تہذیب و تمدن کا بیڑاغرق کر رہے ہیں ۔ ناجائز بچے جن کا کوئی وارث اور ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا، وہ معاشرے میں مزید آزادی سے گند ڈال رہے ہیں ۔ یہ ایک اور خطرناک صورتحال ہے!! ضرورت تو یہ تھی کہ سنجیدہ لوگ اس گندگی کی صفائی کا کچھ بندوبست کرتے، لیکن اہل مغرب نے مزید ڈھٹائی کامظاہر کرتے ہوئے اپنے اس معاشرتی عکس کو روشن خیالی، جدت پسندی اور ترقی کا نام دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ باقی دنیا بھی ان ہی کی طرح ہوجائے۔ تاکہ اس دنیا کے حمام میں سب ہی ننگے اور نکٹے ہوں اور کوئی بھی ان کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔ خصوصاً اسلامی تہذیب اور مسلمان تو انہیں بہت ہی کھٹکتے ہیں کیونکہ اسلام حیا کا سبق سکھاتا ہے۔ غیر محرم سے تعلقات کو زنا اور گناہِ کبیرہ شمار کرتا ہے۔ نیز مسلمان بچوں سے نفرت بھی نہیں کرتے اور اسلام اس شخص کو جسے تسکین کے لئے ایک بیوی کافی نہ ہو، دوسری، تیسری اور چوتھی بیوی کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ تاکہ معاشرے میں ناجائز تعلقات پیدا کرنے کا جواز ہی باقی نہ رہے۔ بلکہ اگر کبھی جنگ وغیرہ کے نتیجے میں مردوں کی تعداد کم ہوجائے تو یتیموں اور بیواؤں کو اس اجازت کے ذریعے معقول سہارا مل سکے یا اس کے علاوہ بھی ملک و قوم کی جب بھی خدمت کے لئے، اس جواز کی ضرورت ہو، اسے استعمال میں لایا جائے۔ تعددِ ازواج کی اجازت کے اسلامی اصول سے دنیا کے کافر بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ اب وحدتِ زوج اور قلت ِاولاد کا اصول اپنا چکے ہیں ۔ جبکہ تعددِ ازواج سے مسلمان کثرت سے اور تیزی سے اپنی نسل کو بڑھا سکیں گے۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان کی آبادی بڑھنے کی یہی صورتحال رہی یا اس سے بھی تیز ہوگئی تو کہیں ہم اقلیت اور مسلمان دنیا کی اکثریت نہ بن جائیں ۔ بغیر کسی جنگ و انقلاب کے مسلمان دنیا پرچھا جائیں گے۔ بلکہ بقول محمد حنیف ندوی ’’اگر صرف ہندوستان کے مسلمان تعددِ ازواج کے اصول کو اپنا لیں تو بغیر کسی خاص محنت کے صرف پچاس برس میں وہ ہندوستان کی اکثریت میں تبدیل ہوجائیں گے۔‘‘… اور یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ جو مسلمان زنا سے بچیں اور کردار و ایمان کی حفاظت کریں ، دنیا کے کافروں کو خطرہ بھی ان ہی سے ہے۔