کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 91
برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اور عورت بھی اپنی خواہش نفس سے توجہ ہٹاکر بچے کی طرف مبذول کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس عورت کو آرام دے۔ اس کے بعد دوسری عورت سے نکاح و صحبت ہو تو تین ماہ بعد وہ بھی اسی کیفیت والی ہوگی۔ اس کے بعد تیسری بیوی سے پھر تین ماہ تک اگر تعلق قائم رکھے تو کل نو ماہ ہوئے، ابھی پہلی بیوی فارغ نہ ہوئی، لہٰذا چوتھی بیوی کی ضروت ہوگی اور اس کے تین ماہ بعد پہلی بیوی بچے سے فارغ ہوچکی ہوگی۔ لہٰذا اس کا دورانیہ پھر سے شروع ہوسکتا ہے۔ چوتھی کے بعد پانچویں کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ اوّل بیوی اس کے قابل ہوچکی ہوگی، اسی طرح بار ی باری سب بیویاں اس کی صحبت کے قابل ہو کر دوبارہ بچہ جننے کے عمل کے لئے تیار ہوسکتی ہیں او ریہ اس شخص کے لئے کافی تعداد ہے جس کی جنسی خواہش بڑھی ہوئی ہو۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ عرب جو کہ اس خواہش میں بڑھے ہوئے تھے، ان کے لئے یہ تعداد مناسب رہی۔[1] اسی سے ملتی جلتی ایک توضیح اور بھی ہے کہ مزاج انسانی کی چار قسمیں ہیں بلکہ ظاہری موسم بھی چار قسم کے ہوتے ہیں ۔ گویا جو چار مزاجوں سے لطف اندوز ہوا، اس کو مزید کی ضرورت نہیں بلکہ تکمیل شد۔ غرضیکہ مختلف حکما نے مختلف وجوہات بارے ذہن رسائی کی ہے۔ مگر امر فیصل یہی ہے کہ وجہ معلوم ہو یا نہ ہو، یہ اجازتِ الٰہی سے ہے لہٰذا اس پر عدمِ اتفاق حرام ہے۔ قرآن وسنت نے آزاد عورتوں سے نکاح کی حد مقرر کی ہے، مگر لونڈیاں رکھنے کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ اس وجہ سے کہ یہ بھی عام اَموال کی طرح ایک مال کی قسم ہے جسے بیچا اور خریدا جاسکتا ہے۔ اسے وہ حقوق حاصل نہیں جوبیوی کو حاصل ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان میں حد بندی نہیں کی گئی۔ [2]البتہ اسلام نے غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی او رلونڈیاں بنانے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی۔ چنانچہ آج اہل اسلام میں ان کا رواج نہیں رہا۔ اس حوالے سے اس معاملے پر غوروخوض کی مزید کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ اب یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جو درپیش ہو۔ عورت کیلئے صرف ایک خاوند کیوں ؟ اس امر پر صرف مسلمانانِ عالم ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام مہذب اَقوام متفق ہیں اور ساری تاریخ میں متفق رہی ہیں کہ عورت کا خاوند ایک ہونا چاہئے۔ البتہ جاہل اور بے راہرو قوموں کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ آج کل کچھ شیطانی فکر رکھنے والے لوگ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ مرد کو اگر چار عورتوں کی اجازت ہے تو عورت کو چار مردوں کی اجازت کیوں نہیں ؟ اس کیوں کا جواب محققین نے چند پہلوؤں سے دیا ہے : اشتباہِ نسل:الشیخ فرید الدین عطار لکھتے ہیں کہ یہی مذکورہ سوال ایک دفعہ ابوحنیفہ نعمان بن