کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 90
بیان کرتے ہیں : ’’بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہوسکتے، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بدامنی پھیلانے لگے جاتے ہیں جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لئے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعددِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔‘‘[1] صرف چار ہی کیوں ؟ اسلام سے قبل صورتحال اتنی دِگرگوں تھی کہ لوگ جتنی چاہتے بیویاں رکھتے۔ یہ حالت نہ صرف عرب کے جاہلوں کی تھی بلکہ دیگر اَدیان کے مذہبی راہنماؤں کے متعلق آپ جان چکے ہیں کہ وہ بھی کثرتِ ازواج پرکاربند تھے اور یہ بات ان کی شرائع میں رائج تھیں ۔ مگر ایسا معاملہ تھاکہ بالعموم بیویوں کے درمیان اس سے انصاف نہیں ہوپاتا۔ چنانچہ شریعت ِمحمدیہ میں اس عمومی اجازت کو چار تک محدود کر دیا گیا تاکہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان آسانی سے انصاف کرسکے۔ حافظ ابن قیم إغاثۃ اللھفان میں لکھتے ہیں : ’’ومنع من تجاوز أربع زوجات لکونه ذريعة ظاھرۃ إلی الجور وعدم العدل بينهن وقصر الرجال علی الأربع فسحة لهم في التخلص من الزنی…الخ‘‘[2] ’’اور چار بیویوں کی حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا گیا، کیونکہ چار سے تجاوز کرنا ان کے درمیان واضح ذریعہ تھا ظلم اور نا انصافی کی طرف اور مردوں کو چار بیویوں تک محدود کر دیا تاکہ ان کو زنا سے چھٹکارے میں آسانی رہے۔‘‘ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’تین سے آگے کثرت کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ تین راتوں سے زیادہ عورت خاوند سے دور رہے تو کثرتِ دوری کہلائے گی۔ اس لئے شریعت نے چار بیویوں تک کی اجازت دی کہ زیادہ سے زیادہ تین راتوں کی تنہائی کے بعد عورت کی اپنے خاوند سے شب بسری ممکن ہو۔[3] اور یہی وہ مناسب توضیح ہے جس کی تائید ابن قیم إعلام الموقعین میں بایں الفاظ فرماتے ہیں : ’’ولرجوعه إلی الواحدۃ بعد صبر ثلاث عنها والثلاث أول مراتب الجمع‘‘[4] ’’تین راتوں کے بعد پہلی بیوی کے بعد پلٹ آنا کیونکہ تین ’جمع‘ کا پہلا درجہ ہے۔‘‘ اسکے علاوہ چند خوبصورت حکمتیں اور بھی بیان کی جاتی ہیں ، مولانا اشرف علی تھانوی کا خیال ہے کہ ’’آدمی جب کسی عورت کو نکاح میں لائے گا تو کم از کم یہ عورت اس کے لئے تین ماہ تک کافی ہے۔ کیونکہ حمل کی شناخت کم از کم تین ماہ تک مقدر ہے۔ دورانِ حمل عورت سے صحبت سے جنین پر