کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 89
درحقیقت یہی وہ خطرہ ہے جس سے ڈر کر تمام دنیا کے کفار اور کفار کے مسلمان نما ایجنٹ تعدد ازدواج کے خلاف زہر اگلتے ہیں ، کیونکہ اس وقت صرف اسلام پر عمل کرنے والے اسے اپنائے ہوئے ہیں اور اگر یہ رواج بڑھ گیا تو ہندوستان تو ایک طرف پوری دنیا میں کفار مسلمانوں کے مقابلے میں اقلیت میں آجائیں گے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کو وحدتِ زوج اور محدود بچوں کامشورہ دیتے ہیں اوراپنی مغربی اقوام کو منتیں کرتے ہیں کہ زیادہ بچے پیدا کرو۔ اگر کسی تمدن میں قانون صرف ایک بیوی رکھنے کا ہو تو وہاں لازماً بے راہ روی پھیلے گی۔ دیارِ مغرب اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ جہاں کھلی شہوانیت کی حوصلہ افزائی ہے اور پابندیٔ یک زوجی بھی، وہاں پھر مرد دیگر عورتوں سے ناجائز تعلقات استوار کر رہے ہیں ۔ وہ اقوام اخلاقی بدحالی کا شکار ہیں ۔ کنواری ماؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ا س کی نسبت (Ratio) دن بدن معاشرے میں بڑھ رہی ہے۔ ناجائز بچے کثرت سے ہو رہے ہیں ۔ نسب نامے کم ہور ہے ہیں ۔ خاندان مٹ رہے ہیں ۔ مزید برآں حرامی بچے لاوارث ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ یہ ذمہ داری بھی ریاست کو اٹھانا پڑتی ہے۔نتیجۃً ریاست کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کہ اگر کسی معاشرے میں ناجائز بچوں کی تعداد زیادہ ہوجائے جن کا کوئی وارث نہ ہو۔ جو شتر بے مہار کی طرح معاشرے میں زندگی گزاریں ۔ ان کی اخلاقی تربیت کے لئے کسی باپ کی ذمہ داری نہ ہو، تو یہ بچے معاشرے کے جرائم کی نرسری بن جاتے ہیں اور یہ بڑے ہو کر چونکہ باضابطہ رشتہ داری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے لہٰذا جنسی اباحیت پھیلاتے ہیں ۔ مغربی معاشرے میں اب یہ عام ہے۔ جہاں انہوں نے مادّی، سائنسی ترقی کی ہے، وہاں اخلاقی طور پر ان کا دیوالیہ تقریباً نکل چکا ہے اور یہ پہلو ایسا ہے جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔اگر اہل مغرب نے بھی تعددِ ازواج کے قانون کو اپنایا ہوتا اور عورت کو چار دیواری میں رکھا ہوتا تو کم از کم اتنی خطرناک صورتحال نہ ہوتی۔ لیکن وہ تو اس کے برعکس یہ چاہتے ہیں کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے!‘‘ وہ اہل اسلام کو ورغلانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں او راپنی ترقی کے نام پر انہیں بھی اباحیت و عریانیت اپنانے کے پرزور دعوت دے رہے ہیں اور اب تو امداد بھی ایسی آزادی کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں تاکہ ان میں بھی گند پھیلے اور یہ ہمارے مقابلے میں آنے کے قابل نہ رہیں ۔ کیونکہ اسلحہ کتنا ہی کیوں نہ ہو، اگر بندہ نفسانی خواہشات کا غلام ہو تو کبھی بھی غالب نہیں آسکتا۔ایسی صورتحال کے تدارک کے لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا بہترین حل تعدد ِازواج کا جواز ہے۔ دیکھئے یہی حقیقت مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’تفہیم القرآن‘ میں