کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 88
ہیں کہ بقولِ محمد حنیف ندوی : ’’عورت ایک آلہ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ‘‘[1] تمد نی ضرورت مرد اس قابل ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کا بوجھ اٹھا سکے، یہ صرف اس کے ذاتی حوالے سے ہی نہیں بلکہ بسااوقات تمدن کے وسیع تر مفاد کے لئے ضروری بھی ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ نے اسی جانب رہنمائی فرمائی ہے کہ تعددِ ازواج کے جواز کو یتیموں اور بیواؤں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔ سورۃالنساء کی آیت نمبر ۳ میں اسی تمدنی افادیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اسی آیت کے حوالے سے امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں : ’’اس سے ایک معاشرتی مصلحت میں فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے، لیکن معاشرتی مصلحت صرف ایک یتیموں کی ہی مصلحت نہیں ہے بلکہ اور بھی مصلحت ہوسکتی ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہو۔‘‘ [2] اگر کسی کے اوپر جنگ مسلط کردی جائے اور شہدا کی تعداد بڑھنے لگے تو یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کے لئے تعددِ ازواج پر عمل ناگزیر ہوجاتاہے اور مسلمان قوم میں تو جہاد قیامت تک جاری ہے۔ پھر اس جواز کی افادیت بھی قیامت تک جاری رہے گی۔ (ان شاء اللہ) اس کے علاوہ اس جواز سے کتنے بڑے بڑے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں ، اس کی صرف ایک مثال محمد حنیف ندوی کے قلم سے یوں بیان ہوتی ہے: ’’ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرتِ ازواج کی رسم کو جاری کیا جائے۔ جیسے یورپ میں جنگ ِعظیم کے بعد۔ کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرتِ ازدواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑاظلم نہیں …؟‘‘[3] الغرض نسل انسانی کے بقا کے لئے ایسا کرنا بہت ضروری بھی ہوجاتا ہے۔ انقلابی تدبیر ہندوستان جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ ان کو ندوی صاحب کامشورہ ہے کہ وہ تعدد ازواج اور کثرتِ تناسل پر عمل کریں ۔ ان شاء اللہ مسلمان اقلیت سے اکثریت میں تبدیل ہوجائیں گے او ریہ بڑی تبدیلی صرف چند دہائیوں میں عین ممکن ہے۔ملاحظہ فرمائیے مولانا کی رائے : ’’ہندوستان میں اگر مسلمان کثرتِ ازدواج پرعمل کرنے لگیں تو صرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبدل بہ اکثریت ہوجائے۔‘‘[4]