کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 87
’’عورت اورمرد اگرچہ عمل مجامعت کی لذت میں برابر کے شریک ہیں ۔ لیکن چونکہ نفقہ وسکنی مرد کے اوپر عائد ہوتا ہے، تو اس اضافی بوجھ کے باعث اسے اجازت ہے کہ وہ ایک سے زائد عورتیں رکھ سکتا ہے۔‘‘ [1] مزید برآں إعلام الموقعین میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے مردوں کو نبوت ورسالت، خلافت وامارت، حکومت وجہاد کے ساتھ ساتھ عورت پر قوام بناکر فضیلت دی ہے، اورمرد اِن کٹھن امور کی انجام دہی کے لئے زبردست محنت کرتا ہے جب کہ عورت صرف گھر میں سکون کے ساتھ رہتی ہے تو مردوں کا حق ہے کہ ان کی دل لگی کے لئے اگر ایک سے زائد عورتوں کی ضرورت ہو تو پوری ہو‘‘[2] الغرض یہ معاملہ بھی مرد کی فضیلت کا ہے اور ربّ ِکریم کی عطا ہے؛ وہ جسے چاہے، برتری دے۔ کثرتِ نسل اُمت ِمحمدیہ قیامت کے دن سب اُمتوں سے بڑی ہوگی ‘اور اس پر ہمارے پیغمبر فخر کریں گے، ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ اُمت میں اضافے کی فکر کریں۔ایسی عورتوں سے شادی کریں جن سے بکثرت نسل پھیلے، اگر مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں گی ‘اورسب سے اولاد ہو تو مرد کی نسل کس قدر زیادہ ہوگی۔ کم ازکم چار گنازیادہ بنسبت اس شخص کے جس کی صرف ایک ہی بیوی ہو۔بدائع الفوائد میں کثرتِ ازواج کا ایک اہم مقصد یہ بھی بیان کیا گیا ہے ’’وأيضا ففي التوسعة للرجل يكثر النسل الذي ھو من أھم مقاصدالنکاح‘‘[3] ’’اسی طرح زیادہ شادیاں کرنے سے آدمی کی نسل کثرت سے ہوتی ہے جو کہ نکاح کے اہم مقاصد سے ہے۔ ‘‘ شاہ ولی اللہ کے الفاظ اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیے : ’’وأعظم المقاصد التناسل والرجل يكفي لتلقيح عدد كثير من النساء ‘‘[4] ’’اورنکاح کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد نسل بڑھانا ہے ‘اور ایک آدمی بہت زیادہ عورتوں کو بار آور کرنے کے لئے کافی ہے۔ ‘‘ ایک مرد کئی عورتوں کو بارآور کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد آفتاب خاں لکھتے ہیں کہ ’’مرد کے مادہ منویہ میں کروڑوں زندہ حیوانی خلئے ،کرم منی ہوتے ہیں جن میں سے صرف ایک حیوانی خلیہ cell بیضے کے ساتھ ملتا ہے۔‘‘ [5] عورت کی مثال کھیت کی سی ہے، کھیت میں ایک وقت میں ایک ہی طرح کے بیج ڈالے جا سکتے ہیں جب کہ مرد کے پاس بیج ہیں جو ایک سے زیادہ کھیتوں میں ڈالے جاسکتے ہیں ۔ بنابریں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے