کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 86
’’پھر لوگوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جن پر اس شہوت کا غلبہ چھاجاتا ہے، تو ان کی ضرورت ایک بیوی سے پوری نہیں ہوتی تو اس کیلئے دوسری اورتیسری اور چوتھی بیوی کرنے کی اجازت ہے ‘‘ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ولا يمكن أن يضيق فی ذلک کل تضييق (أی الا قتصار علی زوجة واحدۃ) فإن من الناس من لايحصنه فرج واحدۃ ‘‘[1] ’’اور یہ ممکن نہیں کہ اس معاملے میں مکمل تنگی کی جائے (یعنی ایک ہی بیوی کا قانون رکھا جائے) یقینا لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی عصمت کے تحفظ کے لئے ایک بیوی ناکافی ہے ‘‘ مرد اس معاملے میں مجبور ہو جاتا ہے، مگر اہل مغرب نے قانون یک زوجی Monogamyلاگو کررکھا ہے، چنانچہ ایسے ممالک کے مرد دوسری بیوی تو نہیں کرتے مگر اپنی ضرورت کے موافق اضافی داشتہ یا داشتائیں ضرور رکھ لیتے ہیں ۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’اس قانونی پابندی کانتیجہ ہر جگہ یہی ہوا ہے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ہی ہوتی ہے مگر حدودِ نکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیر محدود تعداد سے عارضی مستقل ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیداکرتا ہے۔‘‘[2] مزید فرماتے ہیں : ’’آپ قانونی تعددِ ازواج کو قبول کرتے ہیں یا غیر قانونی تعددِ ازواج کو… ‘‘[3] اہل مغرب کے عمل سے اس سوال کا جواب تو یہی ہے کہ وہ غیر قانونی تعددِ ازواج کو من حیث القوم اختیار کرچکے ہیں ، ذرا اس بارے میں مولانا کا زبردست اعتراض ملاحظہ فرمائیے : ’’مغربی قومیں جو ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ایک قبیح وشنیع فعل او رخارج از نکاح تعلقات کو (بشرطِ تراضی طرفین)حلال وطیب یا کم از کم قابل در گزر سمجھتی ہیں ،جن کے ہاں بیوی کی موجودگی میں داشتہ رکھنا تو جرم نہیں مگر اس داشتہ سے نکاح کرلینا جرم ہے۔‘‘[4] مردانہ برتری کا تقاضا اللہ تعالی نے بہت سے معاملات میں مرد کو عورت پر برتری عطاکی ہے، مرد کا حق وراثت عورت سے دوگنا ہے، گواہی میں مرد عورت سے قوی ہے، حکومت وامامت کا اہل اسے گردانا گیا ہے ‘وقت ِپیدائش بیٹے کے دو جب کہ بیٹی کی طرف سے ایک جان کا عقیقہ کیا جاتا ہے، حافظ ابن قیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا معاملہ بھی ایسا یہی ہے : ’’فکان من تفضيله الذکر علی الأنثی أن خص بجواز نکاح أکثر من واحدۃ‘‘[5] ’’مذکر کی مؤنث پر فضیلت میں سے ہی یہ معاملہ بھی ہے کہ مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی خصوصیت ( حاصل ہے۔ ‘‘مزید لکھتے ہیں کہ