کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 85
ہی پابند بھی کردیا۔ خارجی محرکات عورت بنیادی طور پر خاتونِ خانہ ہے، جب کہ مرد معاشرے میں آزاد گھومنے والا شخص ہے۔ عورت کی نگاہ گھر کی چار دیواری میں محدود رہتی ہے، جب کہ مرد کو معاشرے میں دیگر ایسی اشیاء واجناس سے ملاقات ہوتی ہے، جو کہ اس کے شہوانی جذبات کو بھڑکادیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا کہ مرد غلبہ شہوت والا او رزیادہ حرارت والافرد بھی ہے اوراوپر سے جب معاشرے میں اسے ہر طرف مہیجاتِ نفسانیہ سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کے لئے پھر ایک بیوی ناکافی ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی کہتے ہیں : ’’ایک طرف تو آپ مغرب کی اندھی تقلید میں فحش لٹریچر، عریاں تصاویر، شہوانی موسیقی اور ہیجان انگیز فلموں کا سیلاب ملک میں لارہے ہیں ، جو لوگوں کے صنفی جذبات کو ہر وقت بھڑکاتا رہتا ہے۔ دوسری طرف آپ مخلوط تعلیم کو رواج دے رہے ہیں ،’ثقافت‘کے پروگرام چلا رہے ہیں ، روز بروز عورتوں کو ملازمتوں میں کھینچ رہے ہیں ۔ جس کی بدولت بنی سنوری عورتوں کے ساتھ مردوں کے اختلاط کے مواقع بڑھتے جارہے ہیں ۔ اس کے بعد آپ کے تازہ اقدامات یہ ہیں کہ تعددِ ازواج پر آپ نے ایسی پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں جن سے وہ عملاً نا ممکن نہیں تو دشوار ضرورہو جاتا ہے۔ ‘‘[1] ہمارے معاشرے میں خواہشاتِ نفس کو بڑھکایا جاتا ہے او رجب نفس کو تیار کیا جاتا ہے پھر ایک ہی شادی کا پابند کیا جاتا ہے، حالانکہ فی زمانہ نفسانی خواہشات میں اضافے کے محرکات کی وجہ سے مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت ہے۔ تحفظ ِعصمت اسلام حیا کا مذہب ہے اورعصمت وعفت کی حفاظت کا درس دیتا ہے، نکاح کے ذریعے مرد وعورت اپنی پاک دامنی کی حفاظت کرتے ہیں ، مگر بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ عورت اپنی مخصوص ممانعات کے باعث خاوند کے لئے تسکین کا باعث نہیں ہوتی، تب خاوند کیا کرے اور اپنی عصمت کی حفاظت کیسے کرے؟ صبر اچھا ہے، مگر معاملہ اگر صبر وبرداشت سے باہر ہو رہا ہو تو پھر ؟اس معاملے کا حل تعددِ ازواج ہے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ثم من الناس من يغلب عليه سلطان ھذہ الشهوۃ فلا تندفع حاجته بواحدۃ ‘فانطلق له ثانية وثالثة ورابعة ‘‘[2]