کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 83
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : (باب لا يزوج أکثر من أربع) أما حکم الترجمة فبالاجماع إلا قول من لا يعتد بخلافه من رافضي ونحوہ ‘‘[1] صحیح بخاری میں باب ہے کہ کوئی چار سے زائد بیویاں نہیں رکھ سکتا) لیکن عنوان کا حکم بالا جماع ثابت ہے مگر رافضی وغیرہ کہ جن کے اقوال کسی شمار میں نہیں ہیں ۔ امام خازن لکھتے ہیں ’’وأجمعت الأمة علی أنه لايجوز لأحد أن يزيد علی أربع نسوۃ‘‘[2] ’’اور اُمت کا اس امر پر اجماع ہے کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ چار عورتوں سے زائد رکھے۔‘‘ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : ’’أجمع أھل العلم علی ھذا ولا نعلم أحدا خالفه إلاشيئا يحكي عن القاسم بن إبراهيمأنه أباح تسعا لقول اللّٰه (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ) والواو للجمع ولأن النّبی مات عن تسع وھذا ليس بشيئ لأنه خرق للاجماع وترک للسنة ‘‘[3] ’’اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس کی مخالفت کی ہو مگر جو کچھ قاسم بن ابراہیم سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے نو کی اجازت دی ہے اس وجہ سے کہ اللہ کا فرمان ہے (فاَنْکَحُوْا … الخ) اس میں دو۲ اورتین۳ اورچار۴ (کل نو۹ہوئے ) واؤ جمع کے لئے ہے اور اس وجہ سے بھی کہ رسول اللہ جب فوت ہوئے تو ان کی نو بیویاں تھیں …(مگر )یہ قول ودلیل کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ اجماع کے مخالف اور خلافِ سنت ہیں ۔ ‘‘ گویا بعض روافض کا شاذ قول ہے کہ نو تک اجازت ہے مگر چار تک اجازت کا معاملہ پوری طرح متفق علیہ ہے۔ تعدّدِ ازواج کی حکمت اللہ کا ہر حکم قطعی اور واجب الاطاعت ہوتا ہے، چاہے اس کی حکمت انسان کو سمجھ آئے یانہ آئے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان اورسنت واجب الاطاعت ہے اگرچہ منکرین کی درایت کی رسائی اس تک ہو یا نہ ہو۔ اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کی حکمتیں اپنے بندوں پر واضح کردیتا ہے۔ مرد کے لئے چار شادیوں کی اجازت بھی ایسا معاملہ ہے، جس کی حکمت وفلسفہ کو اہل علم نے مختلف انداز سے واضح کیا ہے۔ تعدد ازواج کے دو پہلو ہیں : (۱) ذات پر اثرات (۲)تمدن پر اثرا ت ان دونوں حوالوں سے مفکرین نے اس مسئلے کی عقدہ کشائی کی ہے۔ ذاتی حوالے سے یہ جاننا