کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 82
’’لما تأیّمت اُمّ کلثوم بنت علی عن عمر… الخ‘‘[1] ’’جب اُمّ کلثوم بنت ِعلی عمر سے بیوہ ہوئیں …‘‘ ٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پے درپے نو شادیاں کیں ، جن سے اولاد واحفاد بھی ہوئے[2]جب کہ ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تو کثرت سے شادیاں کرنے میں مشہور ہوئے، حتیٰ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ کو کہنا پڑا کہ تم میرے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کو لڑکیا ں نہ دیا کرو … الخ [3] خلفاے راشدین کا طرزِ عمل تمام صحابہ کی تائید ہی سے تھا۔ کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول نہیں ہے کہ اُس نے اس معاملے میں کبھی اختلاف کیا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس معاملے پر اجماع تھا، نہ صرف صحابہ کرام کا بلکہ بعد میں آنے والے تابعین اور اہل علم کا بھی اس امر پر اتفاق ہے۔ اِجماعِ اُمت قرونِ اولیٰ اور بعد ازاں اہل کا اس امر پر اجماع رہا ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتا ہے، جن کی ایک وقت میں آخری حد چار بیویوں کی ہے۔ شمس الدین السرخسی لکھتے ہیں : ’’ولم ينقل عن أحد فی حياۃ رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ولابعدہ إلی يومنا ھذا أنه جمع بين أکثر من أربع نسوۃ نکاحًا‘‘[4] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہے اورنہ ان کے بعد آج تک ثابت ہے کہ کسی نے چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کیا ہو ۔‘‘ ابو عبد اللہ القرطبی لکھتے ہیں : ’’وھذا كُلِّهِ جَهْل باللسانوَاَلَّيْسَةَ ومخالفةلإجماع الامة إذ لم يسمع عن أحد من الصحابة ولا التابعينانَّهُ لاجمع فی عصمته أکثر من أربع‘‘[5] ’’ جو اقوال وآرا چار سے زائد نکاح کے بارے میں ہیں ) وہ تمام لغت ِعرب وسنت سے لاعلمی کی وجہ سے ہیں اوراُمت کے اِجماع کے مخالف ہیں ۔ کیونکہ نہ کسی صحابی سے سنا گیا ہے اورنہ کسی تابعی سے کہ اس نے اپنے حرم میں چار سے زائد بیویاں جمع کی ہوں ۔‘‘ بعض روافض کا خیال ہے کہ مرد بیک وقت نو تک عورتیں جمع کرسکتا ہے۔ محدثین وفقہا اس کی تردید تو ضرور کرتے ہیں ، مگر چار تک کے جواز میں کسی کا کوئی بھی قطعاًاختلاف نہیں ہے۔