کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 79
٭ اب آئیے دوسرے اعتراض کی طرف کہ تعددِ ازواج کا حکم اضطراری حالات کے لئے ہے اور ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِیْ الْيَتَامیٰ﴾ سے مشروط ہے، مولانا مودودی اس کا جواب یوں دیتے ہیں ’’ان تمام مقاما ت پر شرطیہ الفاظ کو اگر شرطِ حکم قرار دے لیا جائے تو اس سے شریعت کی صورت ہی مسخ ہوکر رہ جائے گی، مثال کے طور پر دیکھئے عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کو پیشہ کمانے پر زبردستی مجبور کرتے تھے، اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی گئی ﴿ لاَتُکْرِھُوْا فَتَياَتِکُمْ عَلی الْبِغَائِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ﴾(النور: ۳۳) کیا اس آیت کا یہ مطلب لینا صحیح ہوگا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں سے متعلق ہے اور یہ کہ لونڈی اگر خود زنا سے نہ بچنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جاسکتا ہے ؟‘‘[1] گو یا مولانا کی صراحت یہ ہے کہ سورۃالنساء کی آیت نمبر۳میں شرطیہ الفاظ ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِیْ الْيَتَامیٰ﴾شرطِ حکم کا فائدہ نہیں دیتے ہیں ، اور یہی مطلب صحیح ہے۔ اب مزید وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاحظہ فرمائیے، وہ فرماتے ہیں : ’’یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوگا کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت مطلق نہیں ہے بلکہ یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ یتامی کی مصلحت کے نقطہ نظر سے تعددِ ازواج کے اس رواج سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے جو عرب میں تھا۔البتہ اس کو چار تک محدود کردیا گیا ہے، اگر مقصود تعددِ ازواج کو یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید کرنا ہے تو اس کے لئے اسلوبِ بیان اس سے بالکل مختلف ہوتا …الخ‘‘[2] گویا اس آیت سے واضح ہے کہ تعددِ ازواج کے اُصول کو معاشرتی مصلحت کے لئے استعمال کیا جائے نہ کہ نظر یۂ ضرورت کے تحت اجازت کا غلط مفہوم لیا جائے، اور قرآن کی آیات کے مفہوم کو بگاڑنے کی مذموم کوشش کی جائے۔ تعددِ ازواج احادیث کی روشنی میں کوئی مانے یانہ مانے، مگر اہل اسلام اورامت ِمحمدی میں شامل تمام فقہاء ومحدثین اس امر پرمتفق ہیں کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی قرآنِ کریم کی سب سے معتبر اورمستند تشریح وتفسیر ہے، جو معنی آیت الٰہی کا حدیث متعین کردے، وہ ہی دینی وتشریعی مفہوم قابل قبول اورمعتبر ہوگا، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے قول وفعل سے ثابت کردیا کہ اسلام میں چار شادیوں کی مرد کے لئے اجازت ہے۔ جس میں نہ حالات کی تخصیص ہے اورنہ ہی کوئی اور اضطراری کیفیت کی شرط ہے، بلکہ علیٰ العموم یہ ایک فضیلت والاکام اور حصولِ ثواب واجر کامعاملہ ہے، آئیے اس ضمن میں وارد مشہور احادیث سے واقفیت حاصل کرتے ہیں :