کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 78
ہے کہ اس آیت سے واضح ہے کہ یتیم بچیوں کے ساتھ زیادتی کا تدارک ہو، مگر مسڑ پرویز اس کا غلط مطلب پیش کرتے ہیں ، ان کا خیال یہ ہے کہ ’’تعددِ ازواج کے متعلق قرآنِ کریم میں صرف یہی آیت ہے اورمشروط ہے: ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِیْ اليتمي﴾کی شرط کے ساتھ…الخ[1] اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ’’اگر کبھی کسی وجہ سے معاشرہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً جنگ کی وجہ سے ۔۔۔بیوہ عورتوں اورجو ان لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوجائے اوران کے مسئلے کا کوئی اطمینان بخش حل نہ ملتا ہو تو اسلامی حکومت وحدتِ زوج کے اُصولی قانون میں استثنا کرکے اس کی اجازت دے سکتی ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ چار تک شادیاں کرلی جائیں …الخ[2] مذکورہ خیال آرائی محض کج فہمی ہے، نہ ہی یہ بات درست ہے کہ قرآن میں تعددِ ازواج کی صرف یہی آیت ہے اورنہ ہی یہ امر واقعہ ہے کہ تعددِ ازواج کا مسئلہ اضطراری حالات سے مشروط ہے۔ مذکورہ آیت کے علاوہ سورۃ النساء ہی میں دوسرے مقام پر ارشاد ہے : ﴿ وَلَنْتستطيعوا أَنْ تَعْدِلُوْابَيْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَتَمِيلُوْ کُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْهَا کَالْمُعَلَّقَةِ، وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰه کَانَ غَفُوْرًا رَّحِيماً ﴾[3] ’’تم سے یہ تو کبھی نہ سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں سے ہرطرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش وکوشش کرلو۔ اس لئے بالکل ایک ہی کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھر لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو اوراگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔‘‘ اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اپنی بیویوں کے درمیان حتیٰ الامکان عدل وانصاف کرنا چاہیے، اگر ایک سے زائد بیویاں نہ ہوں تو اس حکم کا کیا مطلب ہے ؟حافظ ابن کثیر علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں رسولِ عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث نقل کرتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ایک ہی کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط (فالج زدہ )ہوگا۔ ‘‘[4] مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : ’’یہ آیت تعددِازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے، جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اٹھاتا ہے، وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ ‘‘[5] مذکورہ بالا صراحت سے واضح ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کامسئلہ ایک سے زیادہ مقامات پر قرآنِ کریم میں بیان کیا گیا ہے، نیز قرآن نے اس اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے۔