کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 77
ھ۔ ہماری شریعت میں اسے صرف معتدل اوربہترین Releifکرتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں : ’’کان الرجل في الجاهلية يتزوج العشرۃ فما دون ذلک فأحل اللّٰهجل ثناءہ أربعا ثم الذيصير إلی أربع‘‘[1] ’’آدمی جاہلیت میں دس یا کم وبیش عورتوں سے شادی کرتا۔ اللہ نے چار حلال برقرار رکھیں پھر اس پر ان کو چلادیا ۔‘‘ گویا اسلام نے معتدل راستہ چار بیویوں تک کی اجازت کو قرار دیا ہے، ایسا کیوں ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں ؟اب آپ ان کا مطالعہ فرمائیے : شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں تعدد ازواج کی حیثیت نکاح ایک مقدس بندھن ہے، اللہ نے اسے مؤمن کے لئے عفت وعصمت کو بچانے کا ذریعہ بنایا ہے، یہ لاپروائی والاکام نہیں ہے بلکہ سنجیدگی کا طالب ہے، چنانچہ شریعت نے نوجوانوں کو نکاح پر اُبھارا ہے، اور ایک مرد کو چار تک بیک وقت بیویاں رکھنے کی اجازت بھی دی ہے، اور ساتھ ہی یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ چاروں کے درمیان عدل وانصاف برتے۔ اگر خاوند انصاف نہیں کرسکتا تو اسے فقط ایک نکاح تک محدود رہنا چاہیے۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِیْ اليتمي فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً أوْمَا مَلَکَتْ اَيمانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾[2] ’’اور اگر تم ڈرو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو تم نکاح کرو جو اچھی لگیں تمہیں عورتوں میں سے دو، دو۔ تین، تین۔ چار، چار… سو اگر تم ڈرو کہ تم انصاف نہ کروگے تو صرف ایک ہی (کافی ہے) یا جو مالک ہیں تمہارے دائیں ہاتھ، یہ زیادہ قریب ہے کہ تم نا انصافی نہ کرو۔ ‘‘ اس آیت کی سب سے عمدہ تفسیرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ رضی اللہ عنہا واضح کرتی ہیں کہ ’’اس آیت سے مراد وہ یتیم بچیاں ہیں ، جو کسی شخص کی کفالت میں ہوتیں اوران کے مال کی رغبت میں وہ ان سے شادی کرلیتا اور ان کی صحبت کا صحیح حق ادانہ کرتا اورنہ ہی ان کے مال میں انصاف کرتا، ایسے شخص کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ یتیموں کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرلے، دو سے تین سے یا چار سے‘‘[3] مسٹر غلام احمد پرویز اور تعددِ ازواج: گویا یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ بجائے یتیم بچیوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرو، بہتر ہے کہ ان کے علاوہ دیگر عورتوں سے شادی کرلو اورساتھ ہی اس کی حد بندی کردی یعنی زیادہ سے زیادہ چار تک۔ انصاف کی شرط جہاں یتیم لڑکیوں کے بارے میں ہے، وہاں یہی شرط دیگر عورتوں کے بارے میں بھی ہے کہ زیادہ نکاح کی اجازت انصاف سے مشروط ہے۔اہم بات یہ