کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 76
’’سری کرشن جی کی اٹھارہ بیویاں تھیں اور راجہ پانڈو کی دو بیویاں تھیں ‘‘[1] ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے عالی مرتبت انبیا اور بانیانِ مذاہب اور بڑے لوگ کثرتِ ازدواج پرکار بند رہے اور اس امر کی شہادت قرآن، حدیث اور بائبل میں تفصیل کے ساتھ ملتی ہے ۔ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا نہ تو فطرتِ انسانی کے خلاف ہے اورنہ ایسا عمل ہے جس کی نظیر گزشتہ اقوام میں نہ ملتی ہو بلکہ مختلف مذاہب کو ماننے والی اقوام ایک سے زیادہ شادیاں کرتی رہی ہیں ۔ تفریط کی بعض دیگر صورتیں مزید برآں تاریخ ِعالم کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ جاہل قوموں نے دیگر مذہبی اور معاشرتی معاملات کی طرح تعددِ ازواج کے معاملے میں بھی افراط وتفریط سے کام لیا۔ ہندوؤں کی معتبر مذہبی کتاب مہا بھارت ہے، جس میں کوروں او رپانڈوں کی لڑائی کا ذکر ہے، جس میں کرشن جی مہاراج نے پانڈوں کا ساتھ دیا، کیونکہ یہ مظلوم تھے۔ یہ پانچ بھائی تھے، جن کی ایک مشترکہ بیوی تھی جس کانا م ’دروپدی ‘تھا جسے کورے اُٹھا کر لے گئے تھے، یہ پانڈے مشترکہ بیوی رکھنے والے ہندؤوں کے ہیرو ہیں ۔مشترکہ بیوی رکھنے کا تصور کتنا بے ہودہ ہے ؟اور یہ ہندو مت ہی میں قابل قبول ہوسکتا ہے، مگر تعد دِ ازواج پر آج کل خواہ مخواہ اعتراض کیا جاتا ہے ۔ جبکہ عرب دورِ جاہلیت میں اس فطری قانون میں دو طرح کی تبدیلیاں کرچکے تھے : 1. انہوں نے بیویوں کی کثرت کی کوئی حد مقرر نہ کی تھی۔ 2. ایک شوہر جس طرح کثرت سے بیویاں رکھتا تھا، اسی طرح بعض اوقات ایک بے حیا عورت اپنے کئی ’بعول‘رکھتی تھی۔ محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اسلام سے پہلے کثرتِ بعول اورکثرتِ ازواج کی بلا تعیین اجازت تھی یعنی مرد جس قدر چاہتے عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں ، خاوند بنالیتیں ۔ ‘‘[2] حاصل کلام یہ ہے کہ ا ۔ تعددازواج کا ثبوت تاریخ انسانی کے ابتدائی دور سے لے کر بعثت ِخاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تسلسل سے ملتا ہے۔ ب۔ تعدد ازواج کا ثبوت اسلام کے علاوہ دیگر اَدیان کی تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ ج۔ جاہل اقوام نے اسلام سے قبل اس اجازت کو افراط وتفریط کا شکار بنا رکھا تھا۔ د۔ شریعت ِمحمدی نے تعدد ازواج کامسئلہ نئے سرے سے پیش نہیں کیا۔