کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 73
’’رومن کیتھو لک اور ہندو صرف ایک بیوی کی اجازت دیتے ہیں …‘‘ درج بالادونوں تصورا ت متضاد ہیں ، ایک طرف ہیجان خیزی او رمقوی راغبانہ محرکات دوسری طرف شہوت سے مغلوب مرد کے لئے صرف ایک بیوی تک محدود رہنا، حالانکہ اگر ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہو تو یہ مسئلہ جائز اور فطری صورت میں بھی حل ہو سکتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہے کہ نفس پرست لوگ ایک بیوی سے بڑھ کر حرام کاری کرتے ہیں ، اور اب تو اسے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں کوئی عیب بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ نفسانی آوارگی کے جو معاشرتی، اخلاقی، جسمانی اور روحانی نقصانات ہیں ، وہ مسلمہ ہیں مگر وہ اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلمان کہلانے والے بعض جدت پسند ایسے بھی ہیں جو اہل مغرب سے مرعوبیت میں حقائق کا ادراک کیے بغیر فرنگیوں وغیرہ کی نقالی ہی کا سوچتے ہیں ۔ یہ لوگ جو بزعم خویش اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے دعویدار بھی سمجھتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ تعددِ ازواج سے عورتوں کے حقوق پر زد پڑتی ہے، کبھی ان کو مردوں کی بالادستی نظر آتی ہے، کبھی مرد کو چار اور عورت کو ایک تک محدود کرنا ان کو غیر مساویانہ لگتا ہے اورکبھی تعددِ ازواج کو یہ ترقی کی راہ میں حائل سمجھتے ہیں ۔ مزید برآں ایک اور طبقہ جو اسلام کے مسلمہ اُصولوں کی نفی کرکے اسلام سے غداری کا ’فریضہ‘ سر انجام دے رہاہے، وہ تعددِ ازواج کے مسئلے کو اس بنا پر ردّ کرتے ہیں کہ یہ ان کی خام عقل کے موافق نہیں ہے، اس بارے میں آیاتِ قرآنی کی تاویلات اور احادیث ِصحیحہ کا انکار کیا جاتا ہے۔ ایک سرکردہ منکر ِحدیث مسٹر پرویز لکھتا ہے کہ ’’قرآن میں وحدتِ زوج (یعنی ایک وقت میں ایک بیوی)کا اُصول بیان ہوا ہے۔ ایک کی موجودگی میں دوسری نہیں لائی جاسکتی۔ باقی رہی سورۃ النساء کی آیت جس میں ایک سے زائد نکاح کرنے کا ذکر ہے تو یہ جنگ وغیرہ کے نتیجے میں بیواؤں اوریتیموں کی کثرت ہوجائے تو ایسے معاشرتی حالات کی مجبوری کے ساتھ مشروط ہے۔‘‘ [1] الغرض اس مسلمہ حقیقت کا انکار کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں ایک مرد نہ رکھے اور اس معاملے کا منفی انداز میں ڈھونڈرا پیٹا جارہا ہے، حالانکہ یہ محض خام خیالی ہے۔ حقیقت کیا ہے ؟آئیے قطعی دلائل کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں … تعددِازواج کا تاریخی پس منظر سب سے پہلے ہم یہ واضح کئے دیتے ہیں کہ تعددِ ازواج کا انکا رفقط دورِ حاضرکا ایک فتنہ ہے، وگرنہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہزاروں سال قبل بھی اللہ کی طرف سے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔ مختلف جلیل القدر پیغمبروں اور اُمم سابقہ کے حالات کا مطالعہ کرنے سے