کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 70
علّتیں ہیں کہ محدثین کے ہاں یہ کسی صورت بھی قابل استشہاد نہیں مثلاً : 1. امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ’’رواہ الطبرانی فی الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بننضلة وھو ضعيف‘‘ (مجمع الزوائد :۶/۱۶۴) ’’اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔‘‘ 2. امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳/۲۹۲ اور لسان المیزان:۶/۲۶۱ 3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳/۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔ 4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔ یہاں دو باتیں مزید قابل غور ہیں ۔ ایک تو یہ کہ عمرو بن سالم خزاعی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ آکر قریش کے ظلم کے خلاف مدد کی درخواست کرنا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:فتح الباری:۷/۵۱۹،۵۲۰، مصنف عبدالرزاق :۵/۳۷۴، البدایۃ والنھایۃ:۴/۳۰۹،۳۱۰) البتہ جن روایات میں یہ اضافہ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہی عمرو کی پکار سن کر نصرت، نصرت کے کلمات بیان فرمائے، ان میں سے کوئی روایت بسند صحیح ثابت نہیں لہٰذا یہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض ان روایات کو بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی قادری صاحب کا مقصود اس روایت سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی اور یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تک محدود تھا۔ اب اس سے دلیل پکڑنا جہالت یا علمی خیانت ہے! نیز آپ کا بنو خزاعہ والوں کی مدد فرمانا بھی تحت الاسباب اُمور سے تعلق رکھتا ہے اور جب سائل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قریش ِمکہ کی عہد شکنی اور ظلم و جور کے خلاف بنو خزاعہ کی اخلاقی مدد کرتے ہوئے مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح نصیب فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اپنی زندگی میں ظلم وجور، فتنہ و فساد اور کفر و شرک برداشت نہیں کرسکتے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کے بدلے کے لئے ظاہری اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے حتیٰ المقدور تگ ودو فرمائی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کو مدد کے لئے نہیں پکارا، آپ کی ذات کو وسیلہ