کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 69
وضاحت: صاحب ِرسالہ نے اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد اس کے بارے میں کسی طرح کا اظہارِ خیال نہیں فرمایا کہ وہ اس سے توسل بالذات ثابت کرنا چاہتے ہیں یاکچھ اور؟ البتہ رسالے کے عنوان ’’ندائے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! الاستعانہ والتوسل‘‘ کے مطابق نہ تو اس واقعہ سے ندائے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اثبات یا اشارہ ہے اور نہ ہی اس میں توسل کا کوئی لفظ ہے البتہ اس واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ’’تم بھرے مجمع میں مطلوبہ قیدیوں کے مالکوں کے سامنے مجھ سے سفارش کرنے کی درخواست کرنا‘‘ اور یہ سفارش کرنا کسی زندہ شخص کا کام ہے جو بالاتفاق جائز ہے جیسا کہ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اشفعوا توجروا ’’(جائز) سفارش کرو اور اجر حاصل کرو۔‘‘ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیدیوں کی آزادی کے لئے استعانت طلب کرنے سے اگر صاحب ِرسالہ غیر اللہ سے استعانت کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی یہ دھوکہ اور فریب ہے اس لئے کہ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تحت الاسباب امر میں استعانت طلب کی گئی ہے؛ نہ کہ کسی مافوق الاسباب امر میں ۔ جبکہ محل نزاع بات تو یہ ہے کہ مافوق الاسباب معاملات میں بھی غیر اللہ سے استعانت طلب کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ صاحب ِرسالہ کے عقیدے کے مطابق مافوق الاسباب امور میں بھی غیر اللہ سے استعانت طلب کی جاسکتی ہے لہٰذا انہیں اپنے موقف کے مطابق کوئی صحیح دلیل پیش کرنا چاہئے تھا جبکہ مذکورہ واقعہ قطعی طور پر مافوق الاسباب اُمور میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی یہ دلیل بھی ناکارہ ہے۔ 9. صاحب ِرسالہ نے اپنے موقف میں ایک دلیل یہ ذکر کی ہے کہ ’’امام طبرانی معجم صغیر میں راوی ہیں کہ حضرت اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں … انہوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو خانہ میں تین مرتبہ لبیک کہی اور تین مرتبہ نصرت (تمہاری امداد کی گئی) فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو فرما رہے ہوں ۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بنو کعب کا رِجز خواں مجھے مدد کے لئے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنوبکر کی امداد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صبح کی نمازپڑھائی تو میں نے سنا کہ رِجز خواں اشعار پیش کررہاتھا۔‘‘ اس کے بعد قادری صاحب یہ نتیجہ سپرد قلم فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی صحابی ہیں جنہوں نے تین دن کی مسافت سے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں فریاد کی اور ان کی فریاد سنی گئی۔‘‘ (ایضاً ص۴۷،۴۸) وضاحت: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آیا یہ واقعہ سند کے اعتبار سے صحت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے کہ اس سے استدلال کیا جائے؟ تو عرض ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے یعنی ا س کی سند میں ایسی