کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 68
٭ علاوہ ازیں اس راوی کا والد عبیداللہ وصافی بھی سخت ضعیف ہے۔ اسے امام نسائی، ابن معین، ابوزرعہ، ابوحاتم وغیرہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال ۳/۱۷، الکامل ۴/۱۶۳۰، المجروحین :۲/۶۳، تہذیب التہذیب :۷/۵۵ ٭ علاوہ ازیں ابوجعفر باقر کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات بھی ثابت نہیں (دیکھئے سیراعلام النبلاء: ۴/۳۸۶) لہٰذا یہ سند بھی ناقابل استدلال ہے۔ تیسری سند: زياد بن يزيدبن بادويه أبوبکر القصري ثنا محمد بن تراس الکوفی ثنا أبوبکر بن عياش عن أبی إسحق عن البرآء قال بينما عمر … الخ (تفسیر ابن کثیر :۴/۱۶۷،دلائل النبوۃ للبیہقی :۲/۲۴۸) ٭ اس سند کے دو راوی یعنی زیاد بن یزید اور محمد بن تراس مجہول ہیں ۔ دیکھئے السیرۃ النبویۃ للذہبي ص۱۳۰ ٭ نیز ابوبکر بن عیاش کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ (تقریب:۷۹۸۵) اور امام ابوحاتم کے بقول ابوبکر بن عیاش کا ابواسحاق سبیعی سے سماع مشکوک ہے۔ (العلل لابن ابی حاتم :۱/۳۵، تہذیب: ۱۲/۳۷) ٭ علاوہ ازیں ابواسحاق سبیعی مدلس کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں ۔ مذکورہ روایت کی دیگر اسناد کی بھی یہی پوزیشن ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے۔ 8. صاحب ِرسالہ توسل بالذات کے جواز میں ایک اور دلیل یہ لکھتے ہیں کہ ’’حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جِعرانہ تشریف فرما ہوئے، اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہوکر حاضر بارگاہ ہوا، انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کرلو، انہوں نے عرض کیا، ہمیں قیدی محبوب ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قیدی میرے ہیں یا بنوعبدالمطلب کے ہیں وہ تمہارے ہیں ، باقی جو تقسیم ہوچکے ہیں ان کے لئے یہ طریقہ اختیار کرو … (عربی متن کا ترجمہ صاحب ِرسالہ کے قلم سے ملاحظہ ہو) ’’جب میں لوگوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم کھڑے ہوکر کہنا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں ، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں تو میں تمہیں اس وقت عطا کردوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا۔‘‘ (ص:۴۶)