کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 67
روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔ یہ روایت دیگر اسناد سے بھی مروی ہے لیکن ان میں سے کوئی سند بھی صحیح ثابت نہیں مثلاً مجمع الزوائد (۹/۲۵۷) کی سند میں سعدان بن ولید سابری مجہول راوی ہے۔ تاریخ مدینہ (۱/۱۲۴) کی سند میں قاسم بن محمد ہاشمی ضعیف (متروک) راوی ہے۔ اس کے علاوہ اسناد مرسل، منقطع اور معضل ہیں ۔ لہٰذا ایسی کسی روایت کو بطور پیش کرنا کسی محقق عالم کو زیب نہیں دیتا۔ 7. سواد بن قارب فرماتے ہیں کہ ’’طیب و مکرم حضرات کے فرزند! آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام رسولوں سے زیادہ قریب وسیلہ ہیں ۔ آپ اس دن میرے شفیع ہوں گے جس دن کوئی شفاعت کرنے والا سواد بن قارب کو کچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکے گا۔‘‘ (ایضاً ص:۴۵) وضاحت: صاحب ِرسالہ نے اس روایت کے کسی بنیادی ماخذ کا حوالہ نہیں دیا بلکہ مختصر سیرۃ الرسول کا حوالہ دے کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس روایت کی بھی کوئی سند صحیح ثابت نہیں مثلاً پہلی سند: علي بن منصور عن عثمان بن عبدالرحمن الوقاص عن محمد بن کعب القرظي قال بينما عمر بن الخطاب… الخ (حاکم ۳/۶۰۸، دلائل النبوۃ للبیہقی ۲/۲۵۲، المعجم الکبیر ۷/۱۰۹، البدایۃ والنھایۃ ۲/۳۰۹، دلائل النبوۃ لابی نعیم ۱/۳۱، مجمع الزوائد ۸/۲۵۰) ٭ اس سند میں بقول امام ذہبی علی بن منصور مجہول راوی ہے اور عثمان بن عبدالرحمن بالاتفاق متروک (ضعیف) راوی ہے۔ ملاحظہ ہو السیرۃ النبویۃ للذہبي،صفحہ ۱۳۱ ٭ علاوہ ازیں محمد بن کعب قرظی کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں کیونکہ محمد بن کعب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تقریباً تین عشروں بعد پیدا ہوئے ہیں ۔ دیکھئے تقریب التہذیب ۶۲۵۷۔ لہٰذا جب یہ روایت ہی منقطع (ضعیف) ثابت ہوگئی تو پھر اسے بطورِ دلیل پیش کرنا چہ معنی دارد؟ ٭ علاوہ ازیں مذکورہ محدثین مثلاً حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر، امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کواپنی کتابوں میں ذکر کرنے کے بعد اس کے منقطع اور ضعیف ہونے کا بھی حکم لگایا ہے۔ دوسری سند: سعيد بن عبيداللّٰه عن أبيه عن أبی جعفر محمد بن علي (الباقر) قال دخل سواد بن قارب السدوسي علی عمر بن الخطاب …الخ (البدایۃ والنھایۃ: ۲/۳۱۱، فتح الباری: ۷/۱۷۹) ٭ اس سند میں موجود سعید بن عبیداللہ راوی کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: الجرح والتعدیل :۴/۳۸، میزان الاعتدال:۲/۱۵۰،المغنی فی الضعفاء :۱/۳۸۰