کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 66
6. حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کے وصال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ایک سیاہ فام غلام کو قبر کھودنے کا حکم دیا۔ جب لحد تک پہنچے تو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس لحد کھودی اور اپنے ہاتھوں سے مٹی نکالی، جب فارغ ہوئے تو اس قبر میں لیٹ گئے پھر یہ دعا مانگی … ’’اللہ تعالیٰ زندگی اور موت دیتا ہے، وہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں ، میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے ، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے طفیل اس کی قبر کو وسیع فرما، بے شک تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (رسالہ مذکورہ، ص:۴۴) وضاحت: مذکورہ روایت المعجم الکبیر (۸۷۱) اور المعجم الاوسط (۱۹۱) وغیرہ میں موجود ہے، لیکن یہ روایت کئی وجوہات کی بنا پر قابل استدلال نہیں ۔مثلاً 1. اس کی سند میں روح بن صلاح راوی متکلم فیہ ہے جسے دارقطنی اور ابن عدی وغیرہ جیسے کبار محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، اگرچہ حاکم اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے لیکن حاکم اور ابن حبان کا جرح و تعدیل میں متساہل ہونا معروف ہے۔ دیکھئے فتح المغیث (۳/۳۵۹) لسان المیزان (۱/۱۴) اس لئے یہ راوی ضعیف ہے۔ 2. علاہ ازیں تعدیل کے مقابلے میں جرحِ مفسر موجود ہے،اور اُصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر کو تعدیل پر ترجیح دی جائے گی۔ 3. اس کے علاوہ سفیان ثوری مدلس راوی کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں ۔ 4. نیز روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ اس لئے محدثین کے ہاں ایسی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی۔ خود امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’اس روایت کو عاصم احول سے صرف سفیان ثوری نے روایت کیا ہے اور روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں متفرد ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط: ۱/۱۵۳) 5. سفیان ثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے جبکہ صلاح بن روح ۲۳۳ھ میں فوت ہوے اور ان دونوں راویوں کے درمیان تقریباً چوہتر (۷۴) سال کا وقفہ ،ہے علاوہ ازیں صلاح بن روح کے تعلّم حدیث کی پندرہ یا بیس سال کی عمر بھی ان میں داخل کریں تو یہ وقفہ ایک صدی کے قریب پہنچ جاتا ہے، اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ روح بن صلاح کا سفیان ثوری سے سماع ثابت نہیں ۔ اس کی مزید تقویت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن حبان اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’روح بن صلاح مصری اپنے ہم وطن لوگوں سے ہی روایت کرتا ہے۔‘‘(کتاب الثقات :۸/۲۴۴) جبکہ سفیان ثوری کوفی ہیں ۔ لہٰذا روح بن صلاح کا کوفہ جانا ثابت نہیں ، اسی لئے امام مزی نے اسے سفیان ثوری کے شاگردوں میں شامل نہیں کیا۔ لہٰذا یہ