کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 65
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمال کی تبیین اس طرح فرمائی ہے کہ ’’إنما نصر اللَّه ھذہ الامة بضعفتهم، بدعواتهم وصلاتهم وإخلاصهم‘‘ (نسائی…حوالہ) ’’اللہ تعالیٰ اس اُمت کے ضعفا کی دعاؤں ، نمازوں اور اخلاصوں کی وجہ سے اس اُمت کی مدد فرماتے ہیں ۔‘‘ لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے ثابت ہوا کہ کمزوروں اور ضعیفوں کی دعاؤں کی وجہ سے اس اُمت کے دیگر افراد کی مدد ہوجاتی ہے جیسا کہ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’تاويل الحديث أن الضعفاء أشد إخلاصا فی الدعاء وأکثر خشوعا في العبادۃ لخلاء قلوبھم عن التعلق بزخرف الدنيا‘‘ (فتح الباری :۸۹/۲) ’’اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ضعفا دعا کرنے میں زیادہ مخلص اور عبادت میں انتہائی خشوع وخضوع والے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دل دنیاوی چمک دمک سے خالی ہوتے ہیں ۔‘‘ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے اِن بندوں کی دعا جلد قبول کرلیتے ہیں ۔ اور کسی نیک صالح مسلمان سے دعا کروانے میں کسی کو اعتراض نہیں ۔لہٰذا ان احادیث میں توسل بالذات کا کوئی ثبوت نہیں ! 5. ’’إنه کان يستفتحبصعاليك المهاجرين‘‘ رواہ فی شرح السنۃ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقراء مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔‘‘ (ایضاً) وضاحت: صاحب ِرسالہ کی پیش کردہ مذکورہ روایت مرسل (منقطع) ہے کیونکہ اس کا مرکزی راوی اُمیہ بن خالد ہے جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ثابت نہیں لہٰذا جب یہ صحابی ہی نہیں تو اس کی مذکورہ روایت کس طرح قابل حجت تسلیم کی جاسکتی ہے؟ تفصیل کیلئے دیکھئے الاصابہ ۱۳۳ اور الاستیعاب ۱/۳۸ علامہ ازیں مذکورہ روایت کی سند میں سفیان اور ابواسحاق مدلس راوی ہیں اور محدثین کے نزدیک مدلس راوی کی روایت اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنے سماع کی صراحت نہ کردے لیکن یہاں دونوں راویوں کا تصریح بالسماع مذکو رنہیں ، اس لئے یہ روایت قابل دلیل نہیں ! مزید برآں مذکورہ روایت کے ترجمہ میں ’وسیلے‘ کا لفظ صاحب ِرسالہ کا خودساختہ اضافہ ہے کیونکہ متن حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کامعنی وسیلہ کیا جائے البتہ روایت کے مفہوم میں اجمال ہے کہ اللہ کے نبی فقیر مہاجرین کے ساتھ فتح طلب کیا کرتے تھے۔ اس اجمال کی تفصیل گذشتہ روایات میں گذر چکی ہے کہ فقرا کی دعائیں چونکہ زیادہ قبول ہوتی ہیں ، اس لئے ان دعاؤں کے ساتھ آپ فتح طلب کیا کرتے تھے نہ کہ ان کی ذات کا واسطہ دے کر! اس لئے اوّل تو یہ روایت ہی ضعیف ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر اسے صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تو اس میں توسل بالذات کا کوئی اشارہ نہیں ۔