کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 64
ثابت نہیں ۔ اسی لئے علامہ البانی مرحوم فرماتے ہیں کہ’’واعلم أن احاديث الأبدال لايصحح منهاشيئ وكلها معلولة وبعضها أشد ضعفا من بعض‘‘ ’’ابدالوں سے متعلقہ کوئی روایت بھی بسند صحیح ثابت نہیں بلکہ یہ تمام روایات معلول ہیں اور ہر ایک دوسری سے زیادہ ضعیف ہے۔‘‘ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوالسلسلۃ الضعیفۃ۲/۳۳۹ تا۳۴۱) حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’أحاديث الأبدال والأقطاب، والأغواث والنقباء والنجباء والأوتار كلها باطلة علی رسولاللَّه صلی اللّٰہ علیہ وسلم (المنار المنیف: ص۱۳۶) ’’ابدالوں ، قطبوں ، غوثوں ، نقباء، نجباء اور اوتاروں کے بارے میں جتنی احادیث مروی ہیں ، وہ سب کی سب اللہ کے رسول پر جھوٹ ہیں ۔‘‘ (کوئی ایک بھی صحیح نہیں ) امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’حديث الأبدال له طرق عن أنس مرفوعا بألفاظ مختلفة كلها ضعيفة‘‘ (المقاصد الحسنۃ: ص۸) ’’ابدالوں کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مختلف اسناد سے مرفوعاً حدیث مروی ہے جبکہ اس کی تمام سندیں کمزور ہیں ۔‘‘ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو موضوع ثابت کرتے ہوئے اللآلئ المصنوعة فی الأحاديث الموضوعة (۳۳۰ تا ۳۳۲/۲) اور ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الموضوعات (۳/۱۵۱) میں ذکر کیا ہے۔ اب قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ایسی ضعیف، باطل اور من گھڑت روایات کی بنیاد پر کسی عمل کو دینی، شرعی اورجائز قرار دیا جاسکتاہے؟ 4. ھل تنصرون وترزقون إلا بضعفائکم… (ایضا) وضاحت : صاحب ِرسالہ اس روایت کا ترجمہ چھوڑ گئے ہیں پھر اس سے ملتی جلتی ایک روایت ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابغونی في ضعفائکم فإنما ترزقون أوتنصرون إلابضعفائکم (رواہ ابوداود) ’’تم اپنے ضعیفوں میں مجھے تلاش کرو کیونکہ تمہیں رزق اور مدد تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے دی جاتی ہے۔‘‘ مذکورہ روایت میں اجمال ہے کہ ’’تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے تمہاری مدد و نصرت کی جاتی ہے۔‘‘ اس اجمال کی تبیین قادری صاحب نے تو یہ کی ہے کہ ’’صالحین کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہے۔‘‘ (ص:۴۱)