کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 63
کیونکہ ’دلیل‘کہتے ہی اُسے ہیں جو دعویٰ کے عین مطابق ہو خواہ یہ مطابقت ’عبارۃ النص‘ سے ثابت ہو یا ’اشارۃ النص‘ سے یا دلالت کی دیگر اقسام میں سے کسی قسم سے۔ جبکہ مذکورہ دلیل قادری صاحب کے دعویٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ذواتِ صالحہ کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے لیکن پیش کردہ حدیث میں ایسا کوئی لفظ اور اشارہ نہیں ہے کہ نیک لوگوں کا وسیلہ پکڑو! بلکہ حدیث میں تو نیک صالح لوگوں کی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور نیک صالح سے دعا کروانے میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں ۔دعا کروانے اور ان کا وسیلہ از خود اختیار کرنے میں بڑا واضح فرق ہے۔ 3. صاحب ِرسالہ نے اپنے موقف کے حق میں حضرت علی کی یہ روایت بھی پیش کی ہے کہ ’’الأبدال يكون بالشام وھم أربعون رجلا کلما مات رجل أبدل اللَّه مکانه رجلا…‘‘ ’’ ابدال شام ہی میں ہوں گے۔ یہ چالیس مرد ہوں گے، ا ن میں سے ایک جب فوت ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ اس جگہ دوسرا مقرر فرما دے گا۔ ان کی برکت سے بارش دی جائے گی۔ ان کے وسیلے سے دشمنوں پر مدد طلب کی جائے گی اور ان کی بدولت اہل شام سے عذاب دفع کیا جائے گا۔‘‘ (ایضاً : ص۳۹) وضاحت : صاحب ِرسالہ نے اس روایت کا اصل ماخذ ذکر کرنے کی بجائے محض مشکوٰۃ کے حوالہ پر اکتفا کیا ہے۔ بہرحال یہ روایت مختلف کتب ِاحادیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف سے مروی ہیں جبکہ ان میں سے کوئی ایک روایت بھی بسند صحیح ثابت نہیں ۔ مثلاً مذکورہ روایت مسند احمد (۱/۱۱۲) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے شریح بن عبید ہیں اور اس شریح بن عبید کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ۔ دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۶/۵۶۵) اس سے ملتی جلتی مسند احمد (۵/۳۲۲) میں ایک اور روایت بھی ہے مگر اس کی سند میں انقطاع ہے اور عبدالواحد بن قیس اور حسن بن ذکوان ضعیف راوی ہیں ۔ نیزحسن بن ذکوان مدلس بھی ہے اور اس روایت میں اس کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں ۔ علاوہ ازیں شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ (ایضاً۲/۳۴۰)… اسی طرح کی ایک روایت مجمع الزوائد (۱۰/۶۳) میں بھی ہے مگر وہ بھی ضعیف ہے جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ رواہ الطبراني من طريق عمر والبزار عن عنبسة الخواص وکلاھما لم أعرفه‘‘ ’’اسے امام طبرانی نے عمر اور بزار نے عنسبہ کے طریق سے روایت کیا ہے اوریہ دونوں میرے نزدیک مجہول ہیں ۔ ‘‘ اس مفہوم کی کئی اور روایات بھی مذکور ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح