کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 62
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ اس بات کی وضاحت اس مثال سے کرتے ہیں کہ ’’مسلمان کے لئے اسمائے حسنیٰ میں سے کسی نام کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے مثلاً کسی دنیوی ضرورت، رزق میں وسعت یا اُخروی ضرورت، مثلاً جہنم سے نجات طلب کرنے کے لئے اس طرح دعا مانگے : یااللہ! میں تجھ سے سوا ل کرتا ہوں اور تیری طرف اس بات کا وسیلہ پیش کرتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، ایک ہے، بے نیاز ہے تو مجھے شفا بخش یا تو مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ اس طرح اسمائے حسنیٰ کے ساتھ وسیلہ پیش کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا لیکن جب کوئی مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اثر کے ساتھ تبرک حاصل کرے تو یہ جائز نہیں مثلاً یوں کہے کہ یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی کے لباس، یا لعاب دہن یا بول و براز کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے یا میرے حال پر رحم فرما۔ جو شخص اس طرح کرے گا لوگ یقینی طور پر اس کے دین وعقیدہ ہی میں نہیں ، بلکہ اس کی عقل و فہم میں بھی شک کریں گے۔‘‘ معلوم ہوا کہ تبرک اور توسل میں فرق ہے، اسی فرق کی بنا پر اللہ کے رسول کی زندگی میں آپ کی ذات سے تبرک لیا جاسکتا تھا لیکن آپ کی ذات کو آپ کی زندگی میں یا وفات کے بعد بطورِ وسیلہ پیش کرنا درست نہیں ۔ 2. مذکورہ رسالہ میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ ’’رُبّ أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم علی اللَّه لأبرّہ‘‘ بہت پراگندہ بالوں والے جنہیں دروازوں سے واپس کردیا جاتا ہے، اگر قسم دے کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دے۔‘‘ (مسلم بحوالہ رسالہ مذکور ص:۳۸) وضاحت: معلوم نہیں کہ صاحب ِرسالہ اس حدیث سے توسل بالذات کس طرح ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی ایسے بدعتی توسل کا اشارہ وکنایہ تک بھی نہیں ! بلکہ یہ حدیث تو توسل بالذات کے خلاف ایک فیصلہ کن دلیل ثابت ہورہی ہے کیونکہ اس میں بغیرکسی واسطے اور وسیلے کے اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اللہ کو قسم دے کر دعا مانگنے کا ذکر ہے۔ پھر یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قسم کو پورا فرما دیتے ہیں اور اللہ کی ذات اور صفات کے علاوہ غیراللہ کی قسم کھانا شرک ہے۔ قرآن و حدیث سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرکے دعامانگی جاسکتی ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کسی نیک شخص سے دعا کی درخواست کی جائے اور ان تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جب کہصاحب ِرسالہ کا دعویٰ یہ ہے کہ ذواتِ صالحہ کا وسیلہ بھی جائز ہے لیکن پیش کردہ دلیل مذکور میں اس دعویٰ کی کوئی تصدیق یا تائید نہیں ہوتی۔