کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 61
مظاہرہ کرتے ہیں ۔ مذکورہ دلیل میں بھی یہ صورتِ حال ملاحظہ کی جاسکتی ہے کیونکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’ھذا حدیث غریب وإسمعیل بن إبراہیم بن مہاجر یضعف فی الحدیث‘‘ ’’یہ حدیث غریب ہے اور اسمٰعیل بن ابراہیم بن مہاجر کو روایت ِحدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں اس کی سند میں ابن نمیر نامی راوی بھی مجہول ہے۔ (تقریب) لہٰذا جب اس روایت کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں تو پھر اسے بطورِ دلیل پیش کرنا چہ معنی دارد؟ اپنے مطلب براری کیلئے کتب احادیث کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا کوئی انصاف نہیں ! یہ بات بھی محل نظر ہے کہ مذکورہ دلیل سے یہ دعویٰ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ذواتِ صالحہ کو بطورِ وسیلہ پیش کرنا چاہئے! نہ ہی اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو میرے دربار میں وسیلہ بنا کر پیش کرو اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات فرمائی ہے کہ میری ذات کو وسیلہ بناؤ! البتہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی برکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اندر حیات ہیں ، اس وقت تک ان کی ذات کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں بڑے اور فیصلہ کن عذاب سے دوچار نہیں کرے گا۔ اس لئے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص ہے لیکن آپ کی وفات کے ساتھ چونکہ آپ کی ذات مبارکہ کو اس دنیا سے منتقل کردیا گیا، اس لئے اب آپ کی ذات کو وسیلہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات سے تبرک حاصل کیا کرتے تھے۔ لیکن اس تبرک کا سلسلہ بھی آپ کی وفات کے ساتھ منقطع ہوگیا۔ اس سلسلہ میں یہ بات واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کے بال، پسینہ، لعاب اور لباس وغیرہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تبرک حاصل کیا کرتے تھے، لیکن یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی افضل سے افضل شخص کی ذات سے بھی برکت حاصل نہیں کی اور نہ ہی تابعین نے صحابہ سے اور تبع تابعین نے تابعین میں سے کسی کی ذات سے تبرک حاصل کیا! تبرک اور توسل میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ قادری صاحب کو تبرک اور توسل میں فرق کا علم نہیں ، اسی لئے وہ ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کا تعلق تبرک سے ہے، توسل سے انہیں کچھ سروکار نہیں۔ دراصل تبرک کا تعلق صرف دنیاوی خیروبرکت سے ہوتا ہے جبکہ توسل کا تعلق دنیا و آخرت دونوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح تبرک کا تعلق ذات سے ہوتا ہے جبکہ توسل کا تعلق صرف دعا سے ہوتا ہے۔ علامہ