کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 60
نیک صالح و متقی بزرگ سے دعائے خیرکروانا شرعاً جائز ہے اور اس کے جواز سے کسی کو مجالِ انکار نہیں ۔ لیکن صاحب ِرسالہ دعا کروانے کی دلیل ذکر کرکے اس سے توسل بذواتِ صالحہ کا جواز کشید کرنے لگتے ہیں جبکہ توسل بالذات اور نیک شخص سے دعائے خیر کروانے میں واضح فرق ہے جسے صاحب ِرسالہ قصداً نظر انداز کرجاتے ہیں ۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم، لباس وغیرہ (آثار النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم برکت حاصل کیا کرتے تھے اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ نیز یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک خاص و محدود تھا، مگر صاحب ِرسالہ اوّل تو یہ کمال دکھاتے ہیں کہ اس عمل تبرک کو ’توسل بالذات‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس پر یہ طرفہ تماشہ کہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی قیامت تک کے لئے جائز قرار دینے لگتے ہیں ۔ گویا اس طرح خلط ِمبحث کے ذریعے عام قارئین کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ غیراللہ سے مدد طلب کرنا، ان کی ذات کو بارگاہِ خداوندی میں بطورِ وسیلہ پیش کرنا اور ان کی وفات کے باوجود انہیں مدد کے لئے پکارنا تو قرآن و سنت سے ثابت ہے! نعوذ بالله من ذلک صاحب ِرسالہ کی ان مغالطہ آفرینیوں اور فریب کاریوں کا اس سے پہلی قسط میں بھی پردہ چاک کیا گیا تھا اور اس قسط میں مزید کسر پوری کردی گئی ہے۔ البتہ ان کی باقاعدہ ترتیب قائم کرنے کی بجائے صاحب ِرسالہ کی ذکر کردہ ترتیب کے ساتھ ساتھ بحث کی تکمیل کی گئی ہے۔ دیگر دلائل کا جائزہ صاحب ِرسالہ کے پیش کردہ باقی دلائل بھی کوئی علمی وقعت اور استنادی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ اکثر دلائل حددرجہ ضعیف اور صحیح نصوص سے متعارض ہیں جبکہ کچھ صحیح نصوص میں تحریفانہ ارتکاب سے غلط مفہوم ثابت کرنے کیسعی ِلاحاصل بھی کی گئی ہے، بہرطور ان دلائل کا ایک مختصر تجزیہ پیش خدمت ہے : 1. مذکورہ رسالہ کے صفحہ ۳۸ پر مرقوم ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أنزل اللّٰه علیّ أمانين:﴿ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ (ترمذی) ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دو تحفظ نازل فرمائے ہیں : (۱) اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان میں موجود ہو، (۲) اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہیں جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔ ‘‘ پہلی آیت میں عذاب سے محفوظ رہنے کا وسیلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اور دوسری آیت میں عمل استغفار کو قرار دیا گیا ہے۔‘‘ وضاحت : ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ قادری صاحب اپنے دلائل پیش کرنے میں علمی خیانت کا