کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 57
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک عادل جج اوپر کی تحریر سے صاف ظاہر ہوگیا کہ ہمارے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بمنزلہ ایک جج کے ہے جو فریقین متخاصمین میں فیصلہ صادر کررہا ہو اور اس سے تورات کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ’’وہ قوموں کے درمیان عدالت کرے گا۔‘‘ اور انجیل یوحناکی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی : ’’لیکن جب وہ (یعنی روحِ حق) آئے گا تو وہ تمہیں سچائی کی راہ بتائے گا، اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گا لیکن جو کچھ وہ سنے گا، سو کہے گا۔‘‘ (یوحنا : باب ۱۶) تو ہم اب یہ کہیں گے کہ اگر بفرضِ محال ان سب آیات کو حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کے لئے مدارِ شرف ہی سمجھ لیا جائے تو پھر ہمارے حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ اسلام کی نسبت کیا کہا جائے گا۔ جنہوں نے اس عدالت ِعالیہ کے حاکم اعلیٰ (چیف جج) کی حیثیت میں (جس کے روبرو تمام انبیا پیش ہو ہو کر اپنے اور اپنی قوم کے مابین قولِ فیصل کے طالب ہوتے ہیں ) یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے، جس کی بنا پر ہمارے نادان اور نافہم دوست حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُلوہیت تک کا نتیجہ نکال رہے ہیں ۔ جس عدالت کا منصف ملزم کو دنیا کے میزانِ امتیاز میں اس قدر بلند کرسکتا ہے، ا س کے صدر نشین فیصلہ فرما کر رِفعت منزلت اور بلندیٔ مرتبت کے کس مقام پر ہیں ، اس کا اندازہ کون نہیں کرسکتا؟ بجز ہمارے عیسائی مہر بانوں کے جن کی آنکھوں پر تعصب کی مادر زاد پٹی بندھی ہوئی ہے سخن شناس نئی دلبر اخطا ایں جا ست اور سوائے ان عیسائیوں کے دوسرا کون ایسا عقل کا پورا ہوسکتا ہے جو اس عدالت کے جج کی کم مرتَبتی کا اس لئے قائل ہو کہ اس نے ایک شخص کے جرموں سے براء ت کرتے ہوئے اپنی تعریف بھی بیچ میں کیوں نہیں کی۔ بریں عقل و دانش ببا ید گریست ؟ یا جو اس بات کا قائل ہو کہ بری شدہ شخص، جج سے اس لئے بہتر ہے کہ فیصلہ میں اس کا یا اس کی پیدائش کا ذکر تک نہیں ۔ آنحضرت سرو رِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات اس قدر کامل اور ارفع و اعلیٰ تھی کہ سخت سے سخت دشمن ہم عصر بھی اس پر لب کشائی کرنے سے قاصر تھا، چہ جائیکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کہ ان پر اور ان کی والدہ پر چھ سو سال تک الزامات لگائے جاتے رہے۔ اوریہود عیسائیوں کوچیلنج دیتے رہے مگر عیسائیوں نے اس کا جواب تک نہ دیا۔ یہ فخر صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل تھا کہ جہاں آپ نے سابقہ انبیا کی عصمت پر لگائے گئے دھبوں کو صاف کیا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی برتری کو اس چیلنج کے ساتھ پیش کیا :
[1] فرید الدین عطار الشیخ، تذکرۃ اولیاء (اُردو) نذیر سنز پبلشرز اردو بازار لاہور، ص ص ۵۳۔۱۵۲ [2] شبلی نعمانی، سیرۃ النعمان، طبع مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی، ص ۳۴ [3] حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۱۳۳ [4] اعلام الموقعین ۲/۱۰۵