کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 56
’’ قریب ہے کہ آسمان ان کے اس افترا سے (کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے) پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھڑام سے گرپڑیں ، اس سے کہ انہوں نے خدا کے لئے بیٹا قرار دیا۔حالانکہ اللہ کے لئے کسی طرح ہی شایان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔‘‘
(۲) ﴿ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا إنَّ اللّٰهَٰ ھُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ، قُلْ فَمَنْ يَّمْلِکُ مِنَ اللّٰهِٰ شَيْئًا إنْ أرَادَ أنْ ُّيهلك الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمّه وَمَنْ فِی الأرْضِ جَمِيْعًا وَلِلّهِ مُلْکُ السَّمٰوتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنهُمَا، يَخْلُقُ مَايَشَائُ وَاللّٰهُٰ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ ﴾
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) ان سے پوچھو کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں (مریم) کو اور تمام موجوداتِ ارضی کو تباہ کرنے کی ٹھان لے تو کون آڑے آسکتا ہے اور زمین و آسمان اور ان کی مابین مخلوقات تو سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (المائدۃ:۱۷)
(۳) ﴿ لَنْ يَسْتَنْکِفَ الْمَسِيْحُ أنْ يَکُوْنَ عَبْدًا لِلّهِٰ وَلاَ الْمَلاَئِکةَُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ ’’مسیح علیہ السلام کو (اس امر میں ) ہرگز عار نہیں ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے (اللہ کا بندہ ہونے میں عار سمجھتے ہیں ۔)‘‘ ملائکہ مقربین کو بھی (ایسا بننے میں ہرگز عار نہیں ہے۔)‘‘ (النساء:۱۷۲)
(۴) ﴿ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا إنَّ اللّٰهَٰ ثَالِثُ ثَلٰثةٍَ وَمَا مِنْ الهٍٰ إلاَّ الهٌٰ وَّاحِدٌ﴾
’’بے شک کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ تینوں میں کا ایک ہے۔ حالانکہ سوائے اللہ واحد کے کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘ (المائدۃ :۷۳)
(۵) ﴿ مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرًُّسُلُ وَأمّه صِدِّيْقهٌَ کَانَا يَاْکُلَانِ الطَّعَامَ﴾ (المائدۃ:۷۵)
’’نہیں ہیں مسیح ابن مریم علیہ السلام مگر (اللہ کے) رسول۔ بے شک ان سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں ’صدیقہ‘ تھیں ۔ وہ دونوں (ماں بیٹا عام انسانوں کی طرح) کھانا بھی کھاتے تھے (پھر کیسے اُلوہیت میں دخیل ہوگئے؟)
مؤخر الذکر بیان سے خود بخود اس عظیم الشان بہتان کی بھی وضاحت ہوگئی جو صاحب ِ’حقائق القرآن‘ نے یہ کہہ کر باندھا ہے کہ قرآنِ حکیم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُلوہیت کی تائید کی ہے۔ اگر اربابِ بصیرت ان آیات پر جو ہم نے مشتے نمونہ از خروارے درج کی ہیں ، غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اُلوہیت ِمسیح کی جس زور وشور سے قرآن حکیم نے تردید کی ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے۔ اور اگر پادری صاحب اسے تائید تصور کرتے ہیں تو ہم بڑی خوشی سے ان کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے۔ اور آپ بھی انہی الفاظ میں تائید ِاُلوہیت مسیح علیہ السلام کیجئے… خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اب آمدم برسر مطلب …!
[1] سلطان احمد راہی، اسلام کا نظریۂ جنس، الفیصل ناشرانِ کتب لاہور، ص ص ۱۰۱۔۱۰۰
[2] اعلام الموقعین، ۲/۱۰۴