کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 55
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت لعنت کی موت تھی، لہٰذا وہ من جانب اللہ نہ تھے۔ نعوذ باللہ
عیسائی پہلے اور تیسرے اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیتے تھے اور جیسا کہ گبن اور لیکی و دیگر مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ دبی زبان سے اس کا اعتراف بھی کرتے تھے۔
اور دوسرے اعتراض کے جواب میں کہتے تھے کہ وہ ابن اللہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الہامِ الٰہی کی تائیدسے ان سب تنازعات کا خاتمہ فرمادیا اور دونوں فریقوں کو کاذب ٹھہرا کر یوں فیصلہ صادر فرمایا۔
اسلام ہی نے یہود کی تکذیب و تردید کی
اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی براء ت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں ، کیوں ؟
اوّل: حضرت مریم علیہا السلام بالکل عفیفہ اور زنا کی تہمت سے بالکل پاک تھیں ۔ اس ضمن میں ان کا بغیر تقرب،بحالت ِدوشیزگی حاملہ ہونا، روح القدس سے مؤید ہونا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر سب آگئے ہیں ۔ اس میں نہ کوئی حضرت مریم علیہا السلام کا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شرف ہے اور نہ ہی قرآنِ حکیم کا یہ مقصد[1] تھا۔ بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی کمالِ قدرت اور حضرت مریم علیہا السلام کی بریت کا اظہار تھا۔ علیٰ ہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ’تکلم فی المہد‘ بھی محض اپنی والدہ کی بریت کے لئے تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شرف و بزرگی کے لئے۔
دوم: حضرت عیسیٰ علیہ السلام مفتری و کذاب نہ تھے بلکہ خدا کے سچے رسول تھے۔ جوبنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے۔ اور ان کی موت لعنت کی موت نہیں بلکہ خدا نے ان کو کفار یہود کے ستم سے اور صلیب پرلعنت کی موت مرنے سے بچالیا۔
عیسائیوں کے دعویٰ اُلوہیت ِمسیح کو حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں مسترد فرمایا :
(۱) ﴿ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنه وَتَنْشَقُّ الاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا، أنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا، وَمَا يَنْبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ أنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾ (مریم:۹۰)
[1] تفہیم القرآن ۱ /۳۲۱
[2] ابن قیم الجوزیۃ، إغاثۃ اللھفان، دارالکتب العربی، بیروت، فصل فی سد الذرائع، جلد اوّل، ص ۵۰۱
[3] حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۱۳۳
[4] اعلام الموقعین، ۲/۱۰۳