کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 53
’’محض وہمی باتوں کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں ۔‘‘
﴿کَبُرَتْ کَلِمةًَ تَخْرُجُ مِنْ أفْوَاھهمِْ إنْ يَقُوْلُوْنَ إلاَّ کَذِبًا﴾ (الکہف:۵)
’’بہت ہی بڑی قبیح بات ہے جو ان کی زبانوں پر جاری ہے اور یہ سوائے صریح جھوٹ کے اور کچھ نہیں کہتے۔‘‘
پس قرآنِ کریم میں کسی نبی کے چند مخصوص واقعات کو بطورِ فضیلت بیان کرنے سے یہ غرض ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیا معاذ اللہ ایسے فضائل سے خالی ہیں ۔ بلکہ ہرنبی کے واقعات خاص خاص مقاصد سے بیان ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سب نبیوں کے ایک ہی قسم کے واقعات بیان نہیں فرمائے۔
یہاں ان سب تفریقوں کی حقیقت بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔کیونکہ اصل مقصود ’حقائق القرآن‘ کے اعتراضات کا جواب ہے۔ اس لئے ہم فقط حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاص الفاظ میں ذکر کرنے کی مصلحت مختصراً بیان کریں گے :
اسلام سے پہلے حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ
قرآن حکیم کے نزول سے پہلے یہود کا یہ دعویٰ تھاکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہیں ۔اس لئے وراثت ِارض کے فقط وہی مستحق ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ناقابل نسخ اور آخری اور کامل ترین شریعت اور احکامِ الٰہی کا آخری ورق مانتے تھے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ کذاب، دروغ گو، مفتری ملعون وغیرہ جانتے تھے اور ان کی ماں حضرت مریم علیہا السلام پرنہایت مکروہ تہمت لگاتے تھے چنانچہ ان کی خباثت کا یہ اثر ہوا کہ خود عیسائی بھی حضرت مریم علیہا السلام کی عفت و عصمت کے قائل نہ رہے اور جو بہت ہی پکے تھے، وہ بھی مشتبہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
چنانچہ مشہور مؤرخ گبن اپنی شہرۂ آفاق کتابDecline and Fall of Roman Empire (سلطنت ِروما کا عروج و زوال ) کے باب ِاوّل میں لکھتے ہیں :
’’حضرت مریم علیہا السلام کی عفت و عصمت کا اور زنا سے برا ء ت کا خیال سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیا۔ اور انہوں نے بڑے زور سے حضرت مریم علیہا السلام کی براء ت کی اور انہیں ’عفیفہ‘ اور ’صدیقہ‘ قرا ر دیا اور زنا کی تہمت سے بچانے کے لئے انہیں ’مؤید من روحِ القدس‘ بتلایا۔
چنانچہ کروسیڈ( صلیبی جنگوں ) کے دوران جب یہ تصور (یعنی استقرارِ حمل بلا مس) یورپ میں آیا تو سینٹ برنارڈ نے اسے ایک بدعت سمجھ کر مسترد کردیا۔‘‘
کیونکہ وہ یہ خیال کرتا تھا کہ حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت جبریل علیہ السلام نے مباشرت کی تھی جس سے استقرارِ حمل ہوا (نعوذ باللہ)۔ اور اس کی تائید انجیل متی باب اوّل ۱/۱۸ [1]سے بھی ہوتی ہے۔
[1] تفسیر سراج البیان، ۱/۱۸۲
[2] تدبر قرآن (مذکور) ۲/۲۵۳
[3] تفسیر سراج البیان، ۱/۱۸۲
[4] ایضاً