کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 52
اور اس کی تائید میں سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا اور فرمایا ﴿ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْله أفَلاَ تَعْقِلُوْنَ﴾ (یونس:۱۶) میں تم میں نبوت کے دعویٰ سے پہلے ایک عمر (چالیس سال) رہا ہوں تو(کیا تم اس میں کوئی بھی ایسا اخلاقی نقص نکال سکتے ہو جو کمال انسانی کے منافی ہو؟)… کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ اس کا جواب جو دیا ، اُسے مولانا حالی ؔ نے یوں نظم کیا ہے ؎ تیری ہر بات کا یاں یقین ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امین ہے ! اس لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی ربانی سے جہاں کہیں بھی انبیا کا ذکر کیا ہے تو ایسے الفاظ میں جیسے کہ ایک مقدس ذات کو مقدس آدمیوں کا کرنا چاہئے۔ انبیا کرام علیہم السلام کے امتیازات ہاں ان میں سب کے مخصوص امتیازات تھے جو مختلف اوقات پربیان فرمائے گئے لیکن خاص خاص انبیا کی طرف خاص خاص صفات کو منسوب کرنے سے ان صفات کا دوسرے انبیا میں غیر موجود ہونا لازم نہیں آتا۔ مثلا ً سورہ ٔمریم میں فرمایا : ﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إدْرِيْسَ إنّه کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا وَّرَفَعْنه مَکَانًا عَلِيًّا﴾ (۵۶،۵۷) ’’نیز اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے، بلا شبہ وہ سچا نبی تھا اور اس کو ہم نے بہت ہی بلند مقام تک اُٹھایا۔‘‘ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسبت فرمایا ﴿ إنّه کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلاً نَّبِيًّا﴾ (مریم: ۵۴) ’’تحقیق وہ صادق الوعد تھا اور رسول اور نبی تھا۔‘‘ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت فرمایا: ﴿ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ﴾(البقرۃ:۱۳۵) ’’ اور وہ مشرک نہ تھا۔‘‘ تو کیا اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں حضرت ادریس علیہ السلام کی سی راست بازی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سی صادق الوعدی نہ تھی یا حضرت ادریس علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی اوپرکے آسمان پر تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شرک کی نفی کہیں بھی قرآنِ حکیم میں مذکور نہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی باربار مذکور ہے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مشرک تھے؟ اگر مصنف ِ’حقائق قرآن‘ کی یہی منطق صحیح ہے تو ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے: ﴿ إنْ يَتَّبِعُوْنَ إلاَّ الظَّنَّ وَإنْ ھُمْ إلاَّ يَخْرُصُوْنَ﴾ (الانعام:۱۱۶)
[1] ایضاً [2] اعلام الموقعین (مذکور) ۲/۱۰۵ [3] بدائع الفوائد، ۴/۶۱ [4] حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۱۳۳ [5] محمد آفتاب خان ڈاکٹر، قرآن حکیم اور علم الجنین، ادارۂ مطبوعات سلیمانی لاہور، ص۵۵