کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 51
4. ﴿ إنَّا أوْحَيْنَا إلَيْکَ کَمَا أوْحَيْنَا إلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِيينَ مِنْ بَعْدِہ وَأوْحَينَا إلٰی إبْرَاهيْمَ وَإسْمٰعِيْلَ وَإسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالاَسْبَاطِ وَعِيْسیٰ وَأيُوْبَ وَيوْنُسَ وََهارُوْنَ وَسُلَيمَانَ وَاٰتَيْنَا دَاودَ زَبُوْرًا﴾ (النساء:۱۶۳)
’’ہم نے تیری طرف وحی کی جس طرح کہ ہم نے نوح اور اس کے بعد کے انبیا کی طرف وحی کی اورہم نے ابراہیم اور اسماعیل،اسحق اور یعقوب اور ان کی اسباط (اولاد) اور عیسیٰ ،ایوب،یونس، ہارون اور سلیمان علیہم السلام کی طرف وحی کی اور داود کو زبور عطا فرمائی۔‘‘
5.﴿وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئمة يهدوْنَ بِأمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا﴾ (السجدۃ:۲۴)
’’اور جب انہوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے کئی ایسے امام بنا دیے جو ہمارے حکم سے ان کی رہنمائی کرتے تھے۔‘‘
6. ﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إلاَّ نُوْحِیَ إلَيهِْ أنّه لاَ الٰهَ إلاَّ أنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: ۲۵)
’’اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کی کہ سوائے میرے اور کوئی معبود نہیں ، پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘
7.﴿شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی به نُوْحًا وَّالَّذِیْ أوْحَيْنَا إلَيْکَ وَمَا وَصَّيْنَا به إبْرَاْهيمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسٰی أنْ أَقِيْمُوْا الدِّيْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِيهِ﴾(الشوریٰ:۱۳)
’’اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا، جس کا نوح کو حکم دیا اور جو ہم نے تیری طرف وحی کیا اور جس کا ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھاکہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی مت کرو‘‘
یعنی سب انبیا کی تعلیم کا مآل واحد ہے۔
8.چنانچہ سورہ ٔ انبیاء میں تمام انبیاء کے اوصاف امتیازی کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا﴿ إنَّ ھٰذِہ أمَّتُکُمْ اُمّةًَ وَّاحِدًۃً وَأنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء:۹۲) ’’یہ سب انبیا کی جماعت ایک ہی جماعت تھی (اور ایک ہی تعلیم کی حامل جس کامآل یہ تھا کہ) میں ہی تمہارا پالنے والا ہوں پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن حکیم نے انبیا کو فی الجملہ ایک جماعت ِحقہ اور ایک ہی اُمت ِقانتہ کے افرادِ حنیف اور انہیں تمام بنی نوعِ انسان کے لئے مقتدا اور پیشوا قرار دیا ہے۔ چونکہ انبیا تمام بنی نوع انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت تھے، اس لئے ضروری تھا کہ وہ معصوم ہوتے۔ ورنہ اگر چشمہ ہدایت خود ہی گدلا ہوجائے تو اس سے اوروں کو کس طرح ہدایت ہوسکتی ہے۔ اگر اُسوہ (نمونہ) خود ہی خراب ہوجائے تو ان کے تابعین کس طرح کامل ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے جو شخص کمالِ انسانی کی لوگوں کو دعوت دے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کمالِ انسانیت سے متصف ہو اور یہی دعویٰ قرآنِ حکیم نے فرمایا ہے اور اس دعویٰ کو سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا کے سامنے علیٰ الاعلان پیش کیا
[1] حجۃ اللہ البالغہ (مذکور) ۲/۱۳۲
[2] مسئلہ تعدد ازواج، ص۳۲
[3] ایضاً
[4] ایضاً
[5] بدائع الفوائد (مذکور) ۴/۶۱
[6] جنس ’انسان‘ ہونے کے لحاظ سے انسان کی دونوں اصناف (مردو عورت) کے امتیازات کے طور پر یہ خصوصیات کہنا زیادہ مناسب تعبیر ہے۔ مرد کو عورت پر انتظامی فضیلت حاصل ہے جس طرح حمل وحضانت میں عورت کی فضیلت۔ ورنہ مرد وزن انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں اور ان کے حقوق بھی یکساں … (محدث)