کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 46
پھر بھی بعض روشن خیال لوگ جنہوں نے مسیحی مشنریوں کی تحریرات کے تاریک پردہ کو چاک کرکے اسلام کے اصلی نورانی چہرے کا بلا واسطہ مشاہدہ کیا ہے، حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں ۔ ہاں عامۃ الناس کا مبلغ علم تو فقط مشنریوں کی مفتریانہ تحریرات اور جھوٹ سے بھری ہوئی روایات اور فرضی و من گھڑت حکایات اور بے سروپا اعتراضات پر مبنی ہے، ا س لئے اگر وہ عیسائی نہیں رہے تو اسلام سے بھی کچھ حسن ظن رکھنے کاموقع انہیں نصیب نہیں ہونے دیا گیا۔ ہمارے علما کا فرض اس تاریک پردہ کوچاک کرنا اور ہر کہ ومہ کو اسلام کا نورانی چہرہ بے نقاب کرکے دکھانا ہمارے مقتدر علما کا کام تھا مگر افسوس کہ یہ جماعت ِعلما(باستثنائے بعض) ماضی و حال کی باہمی رقابتوں کے بنا پر مسلمانوں کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے میں مصروف ہوگئے اور خارجی دشمن کے حملوں کے دفاعی فرض سے پنبہ درگوش (غافل)ہوگئے۔ اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر مسیحی مشنری اپنے دوگونہ مقصد کی تحصیل میں سرتوڑ کوششیں کرتے رہے اور تاحال اندر ہی اندر سے اسلام کی بربادی اور رخنہ اندازی میں پوری طرح سے مصروفِ کار ہیں اور اگر اب بھی ہمارے علمائے کرام کی جماعت نے اس اہم فریضہ کی طرف توجہ نہ فرمائی اور اس طوفانِ پوادر(خطرناک) کو اپنی پوری صف آرائی سے ہباء منثور(پراگندہ ذرّے) نہ کردیا تواندیشہ ہے کہ ایک طرف توہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو یورپ کے مہذبین کی طرح قومی فیشن سمجھ لے گا اور دوسری طرف یورپ وافریقہ وامریکہ کو حلقہ بگوشِ اسلام بنانے کا موقعہ بھی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ تعلیم یافتہ عیسائی گروہ کی رائے ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اگر کوئی شخص یورپ و امریکہ میں چراغ لے کر بھی تلاش کرنا شروع کرے تو اسے کوئی سچا اور صحیح عیسائی ملنا مشکل ہے۔ وہ لوگ گو بظاہر عیسائی ہیں مگر فی الحقیقت مسلمہ معتقداتِ مسیحی سے منکر ہیں ۔ ان میں سے جو جرأتِ اخلاقی کے زیور سے آراستہ ہیں ، وہ تو علانیہ لا مذہب ہوچکے ہیں اور مسیحیت کی پوری پوری مخالفت کررہے ہیں اور تحریراً و تقریراً اس کے طلسم کوباطل کرنے میں سرگرم ہیں اور بعض جن کی جرأتِ اخلاقی کمزور ہے، وہ سوسائٹی کے دباؤ کی وجہ سے کامل منافقت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر میکس نارڈو یورپ میں مذہب ِعیسائیت کے اثر کی نسبت لکھتے ہیں : ’’اس میں کچھ شک نہیں کہ تعلیم یافتہ گروہ کا ایک معتدبہ حصہ اور سلیم الطبع اور فہیم انسان تقریباً بتمام وکمال اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان کا موجودہ مذہب (عیسائیت) اور ان کا موجودہ نظامِ حکومت اس
[1] ابن ہشام، سیرتِ ابن ہشام (اردو) طبع شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، جلد دوم، ص۸۰۲ [2] ابن حجر الحافظ العسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، دارالکتب العلمیہ بیروت، ج۸ ص ۴۶۷ [3] ایضا ً [4] ایضاً ج ۸، ص ۱۶ [5] ایضاً ۸/۲۲۸