کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 45
ناکامی ہوگی۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو من کل الوجوہ عیسائیت کی ضد ہے۔ اگر عیسائیت کے عقائد غیر معقول اور ناقابل تسلیم ہیں تو اس کے برعکس اسلام کے عقائد ایسے معقول و آسان فہم ہیں کہ کسی منصف مزاج عیسائی کو بھی ان پر ایمان لانے میں عذر نہیں ہوسکتا۔ اگر عیسائیت کا اخلاقی کوڈ (ضابطہ) فرسودہ ہے کہ فی زمانہ وہ ساقط الاعتبار ہوچکاہے تو اسلام کا اخلاقی ضابطہ ایسا مکمل ہے جو موجودہ زمانہ میں بھی یورپ کے بہترین قانون سازوں کی رہنمائی اور ماہرین اخلاق کی رہبری کرسکتا ہے۔ اس لئے عیسائی مذہب کو ہر میدان میں اسلام سے زَک اٹھانا پڑے گی۔ چنانچہ ’’دشمن جب مغلوب ہوجاتا ہے تو خدع و فریب کو اپنا آلہ اور دسائس و حیل کو اپنا حربہ بناتا ہے‘‘ …اسی کے مصداق عیسائی مشنریوں نے بھی خدع و فریب کو اپنا آلہ کار بنایا اور اسلام کے خلاف تحریراً و تقریراً دروغ بافی کرنا شروع کردی۔ اس سے ان کی پیش نظر دو مقاصد تھے : عیسائی مبلغین کے مقاصد اول: کم علم و ناواقف مسلمانوں اور انگریزی خواں نوجوانوں کو ان کے دین حق سے بدگمان کرنا بالخصوص مؤخرالذکر طبقہ کو،کیونکہ وہ عموماً عربی تعلیم سے ناآشنا ہونے کے باعث اسلامی علوم سے کورے ہوتے ہیں اور عیسائیوں کی تحریرات کوباوجود اس کے کہ وہ کذبِ جلی اور دروغِ صریح سے لبریز ہوں ، مفتریانہ معلومات کا ذخیرہ تصور نہیں کرتے اور دل ہی دل میں سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام پر تو اعتراضات کا انبار ہے۔ان اعتراضات سے متاثر ہوکر وہ عیسائیت تو اختیار نہیں کرتے(کیونکہ عیسائیت کا دامن تو خیر یا معقولیت سے قطعاً خالی ہے اور اس میں یہ استعداد ہی نہیں کہ کسی معقول شخص کو اپنی حقانیت کا معترف بنا سکے) لیکن صحیح اور راسخ العقیدہ مسلمان بھی نہیں رہتے۔ دوم: سمجھ دار عیسائیوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکناجن کے قلوب میں مسیحیت کے پیچ در پیچ عقائد اور مشوش العقول اساسی اصولوں اور غیر معقول اخلاقی آئین نے ایسے سخت شکوک پیدا کردیئے ہیں کہ وہ کسی طرح سے بھی ایمان وایقان کے ساتھ عیسائیت پر کاربند نہیں رہ سکتے اور اپنی فطری ضروریات کی وجہ سے کسی ایسے مذہب کے متلاشی ہیں جو زیادہ ریشنل (معقول) ہو اور ان کی سیاسی،معاشرتی، تمدنی اور گھریلو ضروریات کو بوجہ اتم پورا کرے ۔ اہل یورپ کے پاس سوائے ان مشنریوں کی تحریروں کے اور کوئی کسوٹی اسلام و مسیحیت کے مقابلہ و موازنہ کی نہیں ہے۔ اس لئے لامحالہ یہ مشنری بہت بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اوراہل یورپ کو اسلام سے متنفر بنانے میں پورے فتح یاب، مگر کبھی خاک ڈالے سے چھپتا ہے چاند!
[1] الجامع الترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الرجل یسلم و عندہ عشر نسوۃ [2] السیوطی، جلال الدین، در منثور فی تفسیر الماثور، طبع بیرت ج۲ ص۱۱۹ [3] سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب من اسلم و عندہ نساء اکثر من اربع [4] مسند الشافعی، کتاب النکاح، دارالکتب العلمیہ بیروت، کتاب النکاح، الباب الثالث فی الترغیب فی التزوج: ۲/۱۶ [5] نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طور پر مذکورہ بالا روایات اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو شواہد کی بنا پر ’حسن‘ کے درجہ میں قرا ردیا ہے، جبکہ بعض دیگر علما مثلاً دارقطنی، شوکانی اور ابن عبدالبر وغیرہ نے ان پر ضعف کا حکم بھی لگا یا ہے، شیخ محمد ناصر الدین البانی نے ان روایات پر بالتفصیل اپنی کتا ب ( ارواء الغلیل: ص ۱۸۸۳ تا ۱۸۸۶) میں بحث کی ہے ، جن میں سے بعض کو انہوں نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے اس بحث کی طرف مراجعت مفید ہوگی۔ ادارہ