کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 43
مشرف ایئر پورٹ پر نہ آئیں ۔ ایوانِ صدر میں صرف صدر تارڑ استقبال کریں ۔ کوئی استقبالیہ تقریب نہ ہو۔ جنرل مشرف کسی جگہ صدر کلنٹن کے پہلو میں نہ دکھائی دیں ۔ امریکی عملہ ہلکان ہورہا تھا کہ کہیں صدر کلنٹن اور جنرل مشرف کی ہاتھ ملاتے کوئی تصویر نہ بن جائے۔ پھر ٹون ٹاور گرے اور سب کچھ بدل گیا۔ جب جنرل پرویز کسی لمحے کسی امریکی عہدیدار کو فون کرسکتے تھے۔ امریکہ سے دعوتیں آنے لگیں ۔ وائٹ ہاؤس میں ضیافتیں ہونے لگیں ۔ ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر تصویریں بننے لگیں ۔ صدر بش انہیں اپنا دوست قرار دینے لگے۔ ایسا کیوں ہوا؟
یہ ذاتی سطح پر جنرل مشرف کے لئے خوابناک آسودگی اور احساس کامرانی کا نیا دور تھا۔ اس پذیرائی کو عطیہ غیبی سمجھتے ہوئے وہ امریکہ کی خوشنودی میں بہت دور نکل گئے۔ اس دوران انہوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی حکمت ِعملی پر نئے سرے سے غور کریں ۔ قومی حکومت بن چکی ہے۔ وہ موڑ آچکا ہے کہ پاکستان اپنے اجتماعی ضمیر کی توانا آواز پوری قوت کے ساتھ اٹھائے۔ کسی تصادم، کسی محاذ آرائی کے بغیر امریکہ کو بتادیا جائے کہ چودہ کروڑ پاکستانیوں کی سوچ کیا ہے۔ اسے یہ باور کرا دیا جائے کہ ہم مزید تذلیل کے لئے تیار نہیں ۔ اب ایف بی آئی کے گرگوں کو واپس بلا لیا جائے۔ ہم ایک ذمہ دار اور ہوشمند قوم ہیں ۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کو نشانۂ تمسخر نہ بناؤ بھارت کی آغوش میں بیٹھ کر واجپائی کی زبان بولنا چاہتے ہو تو ہم سے راہ ورسم نہ رکھو اس ضمن میں قومی اسمبلی کو ایک مدلل اور پرعزم قرار داد منظور کرنی چاہئے۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی اپنے طرزِ عمل پرنظرثانی کرنا ہوگی۔ وہ ابھی تک ان کے جذبات و احساسات کی سچی ترجمانی نہیں کرسکی جن کے ووٹ لئے تھے۔ صدر مشرت کی وردی اور ایل ایف او پر لاحاصل غزل سرائی کو کچھ دیر کے لئے معطل رکھتے ہوئے اسے پاکستان کے وقار اور اہل پاکستان کے افتخار کی جنگ لڑنی چاہئے۔ مسلم لیگ (ق) اور اس کے اتحادیوں کو بھی اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
سورج سوا نیزے پر کھڑا ہے اور دہکتی دھوپ خواب گاہوں سے آن لگی ہے۔ قوم کے جذبوں کو زبان دینے اور اس کی اجتماعی قوت کے بھرپور اظہار کی فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے۔ امریکہ کو یہ بتانے کا وقت آن پہنچا ہے کہ یہاں چودہ کروڑ عوام بھی بستے ہیں اور وہ صرف حکومتوں سے معاملہ کرکے من مانی نہیں کرسکتا۔ عوامی قوت کی فولادی فصیل ہی امریکی او ربھارتی عزائم سے دفاع کی ضمانت ہے۔ یہ کام وہ لوگ نہیں کرسکتے جو اپنی سرزمین پربم گرتا دیکھ کر نیا جغرافیہ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں ، یہ کام شاہینوں کو خاکبازی کا سبق دینے والوں کا بھی نہیں ؎
تنش از سایہ بادل تدروے لرزہ می گیرو چو شاہیں زادہ اندر قفس بادانہ می سازو
’’جب شاہینوں کی اولاد پنجرے میں بند دانہ دنکا چگ لینے کی عادی بنا دی جائے تو چکوروں کی پرچھائیں پڑنے سے بھی اس کے بدن پرکپکپی طاری ہوجاتی ہے۔‘‘ ( حسن مدنی)
[1] قرآنی قوانین (مذکور) ص۵۸
[2] ایضا ص ۵۷
[3] القرآن: النساء: ۱۲۹
[4] حافظ ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر (اردو) کا رخانہ تجارت کتب کراچی، ج اول ص ۱۱۲، زیر آیت ۱۲۹/۴
[5] مودودی ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، جلد اول، ص۳۲۱، زیر آیت ۳/۴