کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 42
کل تک کہا جاتا تھا کہ طالبان اُجڈ اور بے لچک ہیں ۔ عالمی سیاست کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔ امریکہ کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہونے کی ایسی حماقت کررہے ہیں جو خود کشی کے مترادف ہے لیکن امریکی جنگی مشین لمبی عباؤں ، بھاری پگڑیوں اور گھنی داڑھیوں کو نابود نہ کرسکی!!
چنگاریاں پھر سے سلگ اٹھی ہیں اور آتش فشاں دہکنے لگا ہے، شمالی کوریا نہ اُجڈ ہے نہ بنیاد پرست۔ کمال سنگ کے بیٹے نے کسی اکوڑہ خٹک سے فیض حاصل نہیں کیا لیکن دنیا کے ہرخطے میں عزت اور ذلت کے پیمانے یکساں ہوتے ہیں !!
شمالی کوریا کے تھپڑ سے گال سہلاتے ہوئے امریکہ کس خجالت سے کہہ رہا ہے ’’ہم شمالی کوریا سے مذاکرات نہیں ، بات کریں گے۔‘‘ مجروح انائیں ایسے ہی بہانے تراشا کرتی ہیں اور پھر ویت نام کی جنگ کے بعد لاس اینجلس میں سب سے بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔ امریکیوں کا مظاہرہ ان کے ہاتھوں میں کتبے تھے:
’’اصل دہشت گرد جارج بش ہے۔‘‘
’’وہ غلطی نہ دہراؤ جو تمہارے باپ نے کی تھی۔‘‘
’’ہم تمہارے مویشی نہیں !‘‘
اب یہ مظاہرے واشنگٹن اور سان فرانسسکو کا رخ کرنے والے ہیں !!
فضا بدل رہی ہے لیکن ہم خود اپنے دباؤ میں ہیں ، اس دباؤ کانتیجہ یہ ہے کہ خارجی دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے اب تک ہم نے امریکی مطالبات کے سامنے کہیں کھڑے ہوجانے او رکوئی بند باندھنے کی کوشش نہیں کی۔ نرم ترین الفاظ میں بھی یہ پیغام دینے کی جسارت نہیں کی کہ ’بہت ہوچکی!‘ اب ہماری سپراندازی، بے چارگی میں بدل چکی ہے۔
بھارت نے کشمیر کے حوالے سے ایسی کامیابیاں حاصل کرلیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ نئی دہلی میں امریکی سفیر بلیک ول نے اپنے گھر پر بھارتی امریکیوں کو ضیافت دی اور تالیوں کی گونج میں کہا
’’ہماری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بھارت میں دہشت گردی ہمیشہ کیلئے ختم نہیں ہوجاتی۔ ہم صدر مشرف پر دباؤ ڈالتے رہیں گے کہ وہ کشمیر میں دراندازی بند کریں ۔ کشمیر میں گڑبڑ کرنے والے حریت پسند نہیں قاتل اور دہشت گرد ہیں ۔ ہم انہیں اسی نام سے پکاریں گے۔‘‘
۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے صدر مشرف کے بارے میں امریکی انتظامیہ کا رویہ انتہائی کھردرا تھا۔ صدر کلنٹن کو امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے بڑی مشکل سے قائل کیا کہ وہ دورۂ جنوبی ایشیا کے دوران پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز نہ کریں ۔ وہ پانچ دن بھارت گزارنے کے بعد پانچ گھنٹوں کے سٹاپ اوور کے لئے اس انداز سے پاکستان آئے کہ ہر پاکستانی کا سرشرم سے جھک گیا۔ انہوں نے حکم صادر کیا کہ جنرل
[1] طبری ابن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف تفسیر طبری، طبع مصطفی البابی الحلبی بمصر، ج۳، ص۲۳۴
[2] القرآن: النساء: ۳
[3] صحیح مسلم، الجامع الصحیح البخاری، کتاب النکاح: باب لایتز وج اکثر من اربع حدیث نمبر ۵۰۹۸