کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 41
وزنی بم نے ہماری زمین پر گھاؤ لگایا۔Bـ52طیارے نے ہمارے ایک جوان کے تعاقب میں اُڑان بھری۔ امریکی فوج نے کہا ’’ہمیں من مانی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ‘‘ پھر اس بات کو کم از کم تین امریکی عہدیداروں نے دہرایا۔ ابھی تک امریکہ نے اپنا بیان واپس نہیں لیا۔ آخری اعلان یہ ہوا ہے کہ ’’ہمیں پاکستانی عوام کے مظاہروں کی کچھ پرواہ نہیں ، ہم حکومت سے معاملہ کرتے ہیں ۔‘‘ ہم نے خود ہی کولن پاول کے ایک تخیلاتی بیان سے اپنے آپ کو تسلی دے لی ہے۔ اس کے بعد میجر جنرل راشد قریشی نے کہا تھا: ’’جی ہاں ! بم پاکستانی علاقے میں گرا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا کہ ’’ڈیورنڈ لائن غیر واضح سی سرحد ہے کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ افغانستان کہاں ہے اور پاکستان کہاں ؟ اس لئے تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بم کس طرف گرا؟ ‘‘ آتش مزاج اور شعلہ بیان وزیراطلاعات شیخ رشید احمد نے بڑی لجاجت سے وضاحت کی ہے کہ ’’ہم نے امریکہ سے کوئی احتجاج نہیں کیا، ایسی خبریں بے بنیاد ہیں ۔ بندہ امریکہ کا زخمی ہوا، اس نے کوئی احتجاج نہیں کیا تو ہم کیوں کریں ؟‘‘ گویا ہماری سرزمین پردانستہ بم گرانا، اسے مبنی برحق قرار دینا اور آئندہ کے لئے بھی یہ عمل دہرانے پر اصرار کرنا کوئی قابل توجہ بات ہی نہیں !! آج کل ہم وارداتِ عشق کی ایک نئی وجدانی کیفیت سے گزر رہے ہیں ۔ اس کیفیت کے طفیل ہم اپنی پسپائی اور رسوائی کو بھی فتح و کامرانی سے تعبیر کرنے لگے ہیں ۔ ساری دنیا سے کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کو منوا لینے کے بعد بھارتی افواج کا ہماری سرحدوں سے ہٹ جانا بھی ہماری فتح ہے۔ ہمارے سکاؤٹ کے تعاقب میں پاکستان پر بم گرانے کے بعد امریکہ کا احتجاج نہ کرنا بھی ہماری کامیابی ہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا: امریکہ نے ایسے رویے کا مظاہرہ جب شمالی کوریا سے کیا تو انہوں نے اسے قومی اَنا کے خلاف تصور کیا … شمالی کوریا میں دس لاکھ انسان نعرہ زن ہوئے۔ اس لئے کہ ان کی قیادت نے قومی انا سے ہم آہنگ فیصلہ کیا۔ ان کو بھی وہی امریکہ دکھائی دے رہا ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے۔ ان کے سامنے بھی وہی جارج بش ہے جس کے آسیب نے ہماری نیندیں حرام کررکھی ہیں ۔ انہیں بھی خونخوار عفریت کا وہ اسلحہ خانہ دکھائی دے رہا ہے جس کے تصور نے ہمارے اعصاب پررعشہ طاری کررکھا ہے۔ اس کے باوجود ان کا وزیراعظم دس لاکھ افرادکے سامنے گرجا : ’’امریکیو! جان لو، ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ اگر جنگ کے بادل ہماری سرزمین تک آگئے تو پھر ہماری فوج اور ہمارے عوام امریکہ نامی ملک کو کرۂارضی سے مٹا کر دم لیں گے۔ پھر دنیا دیکھے گی کہ جنگوں کے دیوتا کا کیا حشر ہوتا ہے اور برائی کی اصل جڑ کو ہم کس طرح اکھاڑ پھینکتے ہیں ۔ ‘‘ اور اگلے دن سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا ’’ہم پر پابندیاں لگائی گئیں تو آگ کا دریا امریکہ کو بہا لے جائے گا۔‘‘
[1] سیرتِ نبوی کا ازدواجی پہلو، ماہنامہ السراج، ج۳، ش ۳، ص ۲۱ [2] محمد حنیف ندوی، سراج البیان فی تفسیر القرآن ، ملک سراج دین پبلشرز، لاہور، ج اوّل، ص۱۸۲، زیر آیت ۳/۴ نساء