کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 103
ہوئی اور ابراہیم نے جس رسو ل کی بعثت کی دعا فرمائی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں قبول ہوئی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرماتے ہیں : (الفتح الربانی: ۲۰/۱۸۱) ’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں ۔‘‘ جبکہ اس کے علاوہ بھی قبولیت کی دو صورتیں ہیں جنہیں لوگ ’قبولِ دعا‘ کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتے، یعنی سائل کی دعا دنیا میں تو پوری نہیں ہوئی، البتہ اس دعا کو روزِ قیامت اجروثواب بنا کر سائل کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا یا بسا اوقات اس دعا کی برکت سے سائل و داعی سے کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے جس کا اندازہ دعا کرنے والے کو نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتا کہ شاید اس کی دعا قبول نہیں ہوئی جبکہ اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے مگر اس قبولیت کی صورت ہمارے خیالات سے کہیں بالا ہوتی ہے۔ بعض اوقات دعا کی جو صورت ہمارے سامنے ہے، اللہ اس سے بہتر صورت میں اس کی تکمیل کردیتے ہیں ، اور وہی ہمارے حالات کے زیادہ موافق ومناسب ہوتی ہے، تو یہ بھی قبولیت ِدعا کی ایک صورت ہے۔ اس میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اس قبولیت ِدعا کو بظاہر اپنے لئے اچھا خیال نہیں کرتے لیکن وسیع تناظر میں یا دور اندیشی کے طور پروہی بات ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ الغرض آداب و شروطِ دعا کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔