کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 102
قبولیت ِدعا کی مختلف صورتیں یاد رہے کہ ہر انسان کی ایسی دعا جو مذکورہ شرائط و آداب کے مطابق کی جائے، وہ قبول ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کاوعدہ ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ ’’اور تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا‘‘ (غافر:۶۰) لیکن دعاکی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہیں جیساکہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ما من مسلم يدعو بدعوۃ ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاہ اللّٰه بها إحدی ثلاث: إما أن تعجّل له دعوته، وإما أن يدخرھا له فی الآخرۃ، وإما أن يصرف عنهمن السوء مثلها، قالوا : إذًا نُکثر، قال: اللّٰه أکثر‘‘ ’’جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں : یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔‘‘ (احمد :۳/۱۸) اس حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دعا کے مذکورہ بالا آداب وضوابط اور شروط و قواعد کو مد ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دست ِسوال دراز کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور بضرور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں ۔ البتہ دعا کی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ سائل کو اس کے سوال ومطالبہ سے نواز کر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور عموماً اسے ہی مقبول دعا خیال کیا جاتا ہے۔ اس صورت کی مزید دو حالتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ ادھر دعا کی جائے او رادھر اسے فوراً قبول کرلیا جائے جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے طلب ِاولاد کی دعا ﴿ رَبِّ هب لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيةً طيبةً﴾ (آلِ عمران: ۳۸) اے میرے ربّ! مجھے تو اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول کرلی اور فرشتوں کے ذریعے انہیں باخبر کیا کہ ﴿اِنَّ اللّٰهُ يبشرکَ بيحي﴾ (آلِ عمران: ۳۹) ’’یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ (بیٹے) کی خوشخبری دیتے ہیں ۔‘‘ دنیا میں قبولیت ِدعا کی دوسری حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دعا طویل عرصہ کے بعد قبول ہو جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ﴿ رَبَّنَا وَابْعَثْ فيهم رَسُوْلاً…﴾ (البقرۃ:۱۲۹) اے ہمارے ربّ ! ان میں سے رسول بھیج…‘‘ جبکہ ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا سینکڑوں برس کے بعد قبول