کتاب: محدث شمارہ 265 - صفحہ 100
شہادت کی خبر پہنچی اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرکے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۳) لیکن یاد رہے کہ دعا سے پہلے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دعا وضو کے ساتھ نہیں مانگی بلکہ کئی دعائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر وضو کے مانگی ہیں ۔ 2. حمد و ثنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال کیا جائے۔ یہ ترتیب مستحب ہے جیسا کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا مگر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عجل ھذا‘‘ ’’اس نے جلدی کی‘‘ پھراسے بلاکر اور دوسرے لوگوں کو بھی فرمایا کہ ’’جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو پہلے حمدوثنا کرے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر جو وہ چاہے دعا کرے۔‘‘ (ابوداود:۱۴۸و سندہ صحیح ، صحیح الجامع :۱/۲۳۸) 3. افضل حالت اور افضل مقام پر دعا دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ انسان افضل حالت میں اور افضل جگہ پر دعا کرے۔ افضل حالت سے مراد یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے انسان کی حالت افضل ہو۔ مثلاً سجدے اور رکوع کی حالت۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! میں تمہیں رکوع و سجود میں تلاوتِ قرآن سے منع کرتا ہوں لہٰذا رکوع میں ربّ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کا اہتمام کرو کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہے۔‘‘ (مسلم:۴۷۹) افضل جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ پرانسان دعا کررہا ہے وہ دوسری جگہوں سے افضل ہو مثلاً حرمین شریفین(بیت اللہ ومسجد نبوی)، مسا جد، مکہ مکرمہ وغیرہ۔ یہ ایسے مقامات ہیں جن میں دوسری جگہوں کی نسبت دعا جلدی قبول ہونے کا امکان ہوتا ہے، حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مکہ کے اندر دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’جب کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر حالت ِنماز میں اوجھ ڈالی تو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بددعا کی اور) ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا گراں گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شہر مستجاب الدعوات ہے۔‘‘ (بخاری :۲۴۰)